قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) نے اتوار کے روز موجودہ گورنر مہاراشٹرا سی پی رادھا کرشنن کو آئندہ نائب صدر جمہوریہ ہند کے انتخاب کے لیے اپنا سرکاری امیدوار نامزد کیا ہے۔ یہ انتخاب 9 ستمبر 2025 کو منعقد ہوگا۔

یہ اعلان بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے صدر جے پی نڈا نے دہلی میں پارٹی کی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کیا۔

“پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ این ڈی اے کی جانب سے نائب صدر کے عہدے کے لیے سی پی رادھا کرشنن کو امیدوار بنایا جائے گا۔ یہ فیصلہ ہم نے اپنے اتحادیوں سے مشورے کے بعد کیا ہے، اور انتخابی عمل کو خوش اسلوبی سے مکمل کرنے کے لیے ہم حزبِ اختلاف سے بھی بات کریں گے،” نڈا نے کہا۔

سی پی رادھا کرشنن کون ہیں؟

چندرپورم پونوسوامی رادھا کرشنن بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر لیڈر ہیں جن کا تعلق ریاست تمل ناڈو سے ہے۔ وہ اس وقت مہاراشٹرا کے 24ویں گورنر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، جہاں انہوں نے 31 جولائی 2024 کو عہدہ سنبھالا تھا۔

اس سے قبل وہ جھارکھنڈ کے گورنر (فروری 2023 سے جولائی 2024) کے طور پر فائز رہے۔ علاوہ ازیں انہوں نے تلنگانہ اور پڈوچیری کے گورنر کا اضافی چارج بھی کچھ عرصے کے لیے سنبھالا تھا۔

رادھا کرشنن دو مرتبہ کوئمبٹور سے لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ منتخب ہو چکے ہیں، اور بی جے پی تمل ناڈو کے ریاستی صدر کے طور پر بھی پارٹی کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔

نائب صدر کے انتخاب سے متعلق اہم تاریخیں

الیکشن کمیشن آف انڈیا کے مطابق نائب صدر کے انتخاب کے لیے اہم تاریخیں درج ذیل ہیں:

  • نامزدگی داخل کرنے کی آخری تاریخ: 21 اگست 2025
  • نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ: 25 اگست 2025
  • پولنگ اور ووٹوں کی گنتی: 9 ستمبر 2025

نائب صدر کا عہدہ خالی کیوں ہوا؟

نائب صدر جگدیپ دھنکڑ نے 21 جولائی کو مانسون اجلاس کے پہلے دن طبی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے عہدے سے اچانک استعفیٰ دے دیا، جس کے بعد یہ عہدہ خالی ہوا۔

“اپنی صحت کو ترجیح دینے اور ڈاکٹری مشورے پر عمل کرتے ہوئے، میں آئین کے آرٹیکل 67(a) کے مطابق، نائب صدر جمہوریہ ہند کے عہدے سے فوری طور پر مستعفی ہو رہا ہوں،” دھنکڑ کے استعفیٰ میں لکھا گیا۔

کیا رادھا کرشنن کی جیت یقینی ہے؟

چونکہ این ڈی اے کے پاس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں عددی برتری ہے، اس لیے سی پی رادھا کرشنن کی جیت کے امکانات روشن سمجھے جا رہے ہیں۔ تاہم، اگر حزبِ اختلاف کوئی مضبوط امیدوار کھڑا کرتی ہے تو مقابلہ دلچسپ ہو سکتا ہے۔