حیدرآباد – چیف جسٹس آف انڈیا () جسٹس بی آر گوائی نے ہفتہ کے روز این اے ایل ایس اے آر یونیورسٹی آف لا کے 22ویں سالانہ کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے عدالتی نظام کو کئی سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے، جن کے حل کے لیے فوری اقدام کی ضرورت ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے پاس ایسے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

انہوں نے ٹرائل میں تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
“کبھی کبھار مقدمات کے فیصلے آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں۔ ایسے بھی واقعات ہیں جہاں افراد کو کئی سال جیل میں گزارنے کے بعد بے قصور قرار دیا گیا۔ ہمیں اپنی بہترین صلاحیتوں کو اس مسئلے کے حل کے لیے استعمال کرنا ہوگا۔”

چیف جسٹس گوائی نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بڑے شہروں کی نیشنل لا اسکولز سے فارغ التحصیل طلباء کو اکثر چھوٹے شہروں یا جامعات کے طلباء سے بہتر سمجھا جاتا ہے، حالانکہ یہ فرق اکثر صرف تاثر کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ صلاحیت کی بنیاد پر۔
“یہ ناانصافی ہے، مگر ایک حقیقت بھی ہے۔ ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہوگا، قبول نہیں کرنا چاہیے۔”

انہوں نے آئین، معاہدہ قانون، دیوانی و فوجداری قوانین جیسے بنیادی قانونی مضامین کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، اور بنیادی علم کی کوئی جگہ نہیں لے سکتا۔

جسٹس گوائی نے یہ بھی کہا کہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا، جیسے مصنوعی ذہانت (AI) اور ڈیٹا پرائیویسی جیسے شعبے، قانون کے شعبے کو بھی تبدیل کر رہے ہیں، اور ہمیں اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

بیرونِ ملک قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے رجحان پر انہوں نے طلباء کو مشورہ دیا:
“اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو ضرور جائیں، لیکن اسکالرشپ اور مقصد کے ساتھ۔ صرف اس لیے نہ جائیں کہ یہ سماجی حیثیت کی علامت ہے۔ 50 سے 70 لاکھ روپے کا قرض خود اور اپنے خاندان کے لیے بوجھ بن سکتا ہے۔ بیرونِ ملک کی ڈگری آپ کی قابلیت کی واحد علامت نہیں ہے۔”

انہوں نے کہا کہ اس رجحان کے پیچھے ایک بڑی ساختی کمزوری بھی ہے – یعنی بھارت میں قانونی ریسرچ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم پر کم اعتماد۔
“اگر ہم اپنے بہترین اذہان کو ملک میں رکھنا یا واپس لانا چاہتے ہیں تو ہمیں تحقیق و تدریس کے ماحول کو وقار، شفافیت، اور میرٹ کی بنیاد پر فروغ دینا ہوگا۔”

اس موقع پر سپریم کورٹ کے جسٹس پی ایس نرسمہا، تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ اے ریونت ریڈی، اور تلنگانہ ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس بھی موجود تھے۔