Last Updated on December 25, 2025 11:51 pm by INDIAN AWAAZ

سہیل انجم
وجود باری تعالیٰ کے موضوع پر دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہونے والے مباحثے کو کئی روز گزر گئے لیکن وہ اب بھی میڈیا اور سوشل میڈیا میں چھایا ہوا ہے۔ جب مفتی شمائل ندوی نے معروف شاعر، فلمی نغمہ نگار اور اپنی دہریت کا برسراسٹیج اعلان کرنے والے جاوید اختر کو اس موضوع پر کہ خدا (اللہ) ہے یا نہیں، بحث کرنے کے لیے چیلنج کیا اور جاوید اختر نے ان کا چیلنج قبول کر لیا اور اس کی تاریخ بھی مقرر ہو گئی تو بہت سے لوگوں نے اسے ایک بچکانہ حرکت سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ چونکہ ایسا ماننے والوں کی اکثریت مفتی شمائل ندوی سے واقف نہیں تھی اس لیے اس نے اسے اسلام، مسلمانوں اور بالخصوص مولویوں کے ممکنہ استہزا سے تعبیر کیا اور اسے ایک فضول کی بحث قرار دیا۔ راقم الحروف بھی مفتی شمائل کو روایتی مولویوں کی طرح ہی سمجھتا تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ خاصے تعلیم یافتہ اور جدید ذہن کے مالک ہیں۔ لہٰذا اس کا یہی خیال تھا اور شاید بہت سے لوگوں کا بھی رہا ہوگا کہ وہ مذہب اسلام اور قرآن و حدیث سے اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ بحث صدیوں سے ہوتی آئی ہے لیکن اس کا کبھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ سچائی یہ ہے کہ اللہ کی ذات کو ثابت کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کوئی اس کی ہستی کو مانے یا نہ مانے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ انسان تو ایک فانی شے ہے، آج ہے کل نہیں رہے گا۔ دنیا بھی فانی ہے۔ یہ بھی ایک روز مٹ جائے گی۔ صرف اللہ کی ذاتی باقی رہے گی۔ جو لوگ اللہ کی ذات کو لازوال و لافانی سمجھتے ہیں وہ بھی فنا ہو جائیں اور جو اس کے وجود ہی کو نہیں مانتے وہ بھی ہو جائیں گے، تو پھر ایسی بحث سے کیا فائدہ۔ لیکن جب بحث شروع ہوئی اور میں نے چند منٹ کی بحث نکل جانے کے بعد اسے دیکھا تو اس سے میری دلچسپی پیدا ہو گئی اور پھر میں نے پوری بحث دیکھی۔ بحث ختم ہونے کے بعد میں نے اس کے لنک پر جا کر چھوٹ جانے والے ابتدائی حصے کو بھی دیکھا۔ جب ابتدا ہی میں مفتی شمائل نے اپنا یہ موقف واضح کیا کہ وہ خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے مذہب کا سہارا نہیں لیں گے بلکہ عقلی دلائل سے ثابت کریں گے تو مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ عقلی دلائل اور منطق سے اللہ کے وجود کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بہرحال جب بحث شروع ہوئی تو مفتی صاحب نے اپنے طریقہ کار پر جمے رہ کر جس انداز میں اپنی بات رکھی اس سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ نرے مولوی نہیں ہیں۔ وہ ان لاکھوں روایتی مولویوں سے مختلف ہیں جو صرف منبر و محراب یا درس و تدریس تک محدود ہیں اور جنھیں باہر کی دنیا کا کوئی علم نہیں۔
لیکن بہرحال مفتی شمائل ندوی نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ مکاتب و مدارس کے تمام لوگوں کو ایک ہی تروزو میں نہیں تولا جا سکتا۔ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو عصری علوم کے ماہرین سے کم عالم نہیں۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ خوب تیاری کرکے آئے تھے۔ قابل ذکر بات یہ رہی کہ انھوں نے اپنے دلائل کے استحکام کے لیے ایک بار بھی قرآن و حدیث کا سہارا نہیں لیا۔ کیونکہ جب فریق مخالف اللہ کے وجود ہی کو نہیں مانتا تو وہ اللہ کے کلام اور اس کے رسول کو کیوں مانے گا۔ لہٰذا اس کے سامنے ایسے دلائل رکھے جائیں جن کو ماننے کے لیے وہ مجبور ہو جائے اور کئی مواقع پر ایسا محسوس ہوا کہ جاوید اختر اپنے دلائل میں کمزور پڑ رہے ہیں۔ بعض مواقع پر مفتی شمائل بھی کمزور پڑتے محسوس ہوئے۔ بالخصوص غزہ میں ہزاروں بچوں کے قتل عام پر خدا کے خاموش رہنے کے سوال پر اسکولی بچوں کے امتحان اور بعد میں نمبر ملنے کی بات کہنے اور یہ کہنے پر کہ ان بچوں کو آخرت میں انعام ملے گا۔ یہ ایک کمزور جواب تھا۔ انھیں اور ٹھوس جواب لانا چاہیے تھا۔ لیکن بہرحال جو فرق ایک عمر رسیدہ شخص اور ایک جوان العمر کی باڈی لینگویج اور جوش خروش میں ہوتا ہے وہی فرق یہاں بھی نظر آیا اور اس کا پلس پوائنٹ مفتی صاحب کے پلڑے میں گیا۔ خاص طور پر جب جاوید اختر نے اکثریت کے فیصلے کو ماننے کی بات کہی اور جب اس پر مفتی شمائل نے کہا کہ کائنات کی اکثریت خدا کے وجود کو مانتی ہے تو پھر آپ کیوں نہیں مانتے۔ اس پر وہ اپنی بات سے رجوع ہو گئے۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ جاوید اختر کو جواب سوچنے کے لیے چند ثانیے لگ گئے جبکہ مفتی شمائل نے سوال ختم ہوتے ہی بلکہ بعض دفع تو سوال مکمل ہونے سے قبل ہی جواب دے دیا۔ البتہ انھوں نے بعض مواقع پر خود کو اس جملے کی آڑ میں چھپایا کہ آپ کا یہ سوال جذباتی ہے۔ بہرحال اس بحث کی ایک بہت اچھی بات یہ رہی کہ فریقین نے اےک دوسرے کے تئیں احترام کا جذبہ برقرار رکھا اور کسی کی شان میں گستاخی نہیں کی۔ اس کے لیے للن ٹاپ چینل کے ایڈیٹر اور مباحثے کے ناظم یا ماڈریٹر سوربھ دویدی بھی قابل مبارکباد ہیں۔ سامعین میں مفتی یاسر ندیم الواجدی بھی تھے۔ اس وقت بہت اچھا لگا جب بحث خوشگوار ماحول میں ختم ہوئی اور جاوید اختر نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم مفتی صاحب اور بڑے مفتی صاحب یعنی یاسر ندیم الواجدی کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔ گویا انھوں نے سامعین کو یاد دلایا کہ آپ لوگ یہ مت سمجھیے گا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے دشمن ہیں یا اس بحث نے ہمیں دشمن بنا دیا ہے بلکہ ہم دوستوں کی مانند ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔ گویا یہ بحث دو دشمنوں کے درمیان نہیں بلکہ دو دانشوروں کے درمیان رہی۔
بہرحال بحث ختم ہو گئی لیکن اس کی صدائے بازگشت میڈیا اور سوشل میں اب بھی سنی جا سکتی ہے۔ البتہ دونوں نقطہ ہائے کو ماننے والوں کی جانب سے اس پر جو تبصرے ہو رہے ہیں وہ انتہاﺅں پر بیٹھ کر ہو رہے ہیں۔ فریقین کے ہمنوا اسے اپنے ہیرو کی جیت اور مخالف کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی جانب سے کہیں زیادہ تند و تیز تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ بلکہ کچھ لوگ تو اسے اسلام اور کفر کی جنگ سے تعبیر کر رہے ہیں اور ایسا تاثر پیش کر رہے ہیں جیسے مسلمانوں نے مفتی شمائل کی جرنیلی قیادت میں ایک بہت بڑی جنگ جیت لی ہے۔ کچھ لوگ جاوید اختر کی تضحیک کر رہے ہیں اور ان کی آڑ میں دوسروں کو بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو فتح مکہ کے واقعے کو یاد رکھنا چاہیے جس میں بڑے سبق پوشیدہ ہیں۔ ردعمل کا ایک سلسلہ تو یہ ہے کہ اسے اسلام اور کفر کے مابین جنگ سے تعبیر کیا جا رہا ہے اور دوسرا سلسلہ یہ ہے کہ اس کو مسلک کے چشمے سے بھی دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جہاں ندویوں کی جانب سے پرجوش مسرت کا اظہار کیا جا رہا ہے وہیں بعض مخصوص مکاتب فکر سے وابستہ افراد اس کو ناپسندیدہ عمل قرار دے رہے ہیں اور اپنے طرز گفتگو سے مفتی شمائل کی کردار کشی کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویہ درست نہیں ہے۔ یہ نہ تو اسلام اور کفر کی جنگ تھی اور نہ ہی اس میں کسی کی شکست اور کسی کی فتح ہوئی ہے۔ لہٰذا اس کے حوالے سے طنز و تشنیع کے تیر چلا کر فریقین یا ان کے ہمنواوں کو تضحیک و تذلیل کا موضو ع بنانا درست نہیں۔
سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ نیشنل میڈیا میں بھی اس بحث کو کور کیا گیا ہے لیکن اس کا رویہ بالکل مختلف ہے۔ نیشنل میڈیا نے اسے مذہبی نظر سے دیکھنے کی بجائے اس بحث کو مثبت انداز میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ البتہ مین اسٹریم میڈیا نے جاوید اختر کے اس جملے کو ہائی لائٹ کیا جو غزہ میں ہزاروں بچوں کی ہلاکت پر انھوں نے کہا۔ جاوید اختر نے اس المیے پر بقول ان کے اللہ کی خاموشی پر سوال اٹھایا اور کہا کہ ”اس سے اچھے تو نریندر مودی ہیں جو کچھ سوچتے تو ہیں“۔ معروف نیوز چینل ”انڈیا ٹوڈے“ کی ویب سائٹ پر دیو یکا بھٹاچاریہ نے اپنے تجزیے میں لکھا کہ جاوید اختر نے اپنے دلائل کی بنیاد انسانی المیے اور اخلاقی تضادات پر رکھا۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں 70 ہزار فلسطینی مارے گئے ہیں تو اگر خدا ہے اور وہ رحم دل اور مہربان بھی ہے تو اس کو روکتا کیوں نہیں۔ انھوں نے مودی کی مثال کو نمایاں انداز میں پیش کیا۔ دیویکا نے جاوید اختر کے جواب میں مفتی شمال کی دلیل کو بھی اہمیت دی اور ان کی اس بات کا حوالہ دیا کہ خدا نے برائی پیدا کی ہے مگر وہ برا نہیں ہے۔ جو اپنی مرضی کا غلط استعمال کرتے ہیں وہ ذمہ دار ہیں خدا نہیں۔ یہ انسان کی پسند و ناپسند کی بات ہے خدا کی نہیں۔
سرکردہ میڈیا ادارے ”دی کوینٹ“ کے آدتیہ مینن نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ کون جیتا اور کون ہارا تو یہ غلط سوال ہے۔ دونوں اپنے موقف میں ایک دوسرے کے متضاد ہیں لیکن دونوں شمالی ہند کے معاشرتی ماحول کے پروردہ ہیں۔ مفتی کا بیک گراونڈ ندوے کا ہے جس کا قیام 1898 میں ہوا تھا اور جاوید اختر ایک اسلامی اسکالر کے خاندان سے ہیں۔ ان کے پردادا مولانا فضل حق خیرآبادی ایک اسلامی اسکالر اور آزادی پسند شخص تھے۔ انڈمان میں برٹش حکومت کی جانب سے دی گئی سزا کاٹنے کے دوران وہیں ان کی وفات ہوئی۔ تاہم جاوید اختر اپنے والد جاں نثار اختر کے نظریات سے متاثر ہیں جو کہ ترقی پسند تحریک میں شامل رہے۔ آدتیہ مینن نے بحث کے دوران دونوں اسکالروں کی سنجیدگی اور صبر و تحمل کی داد دی۔ جبکہ اخبار ”انڈین ایکسپریس“ کے آکاش جوشی کہتے ہیں کہ کم از کم تین ہزار سال سے یہ بحث جاری ہے اور سوال جوں کا توں موجود ہے۔ یہ بحث صرف خدا کے وجود سے متعلق نہیں ہے بلکہ مذہب، سیاست، آزادی اظہار اور اخلاقی ذمہ داری سے بھی متعلق ہے۔ ان کے مطابق مفتی صاحب نے جہاں بحث کو دلائل کے دائرے میں رکھا وہیں جاوید اختر نے عقیدے پر گفتگو کی۔ اسی طرح ”اے بی پی لائیو“ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بحث کے دوران متضاد نظریات پیش کیے گئے اور انسانی المیے، اخلاقیات، عقیدہ اور عقل پر گفتگو کی گئی۔ اس نے بھی دونوں اسپیکروں کی انہیں باتوں کو ہائی لائٹ کیا ہے جن کو دیگر میڈیا اداروں نے کیا ہے۔ نیوز چینل ”آج تک“ نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بحث کے اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ تمام میڈیا اداروں نے دونوں اسکالروں کی ستائش کی ہے۔ تادم تحریر ایسی کوئی رپورٹ نظر نہیں آئی جو کسی ایک فریق کی طرف جھکی ہو یا جس نے کسی کی تضحیک کی ہو یا کسی کو ہدف تنقید بنایا ہو۔ ملت کے پرجوش نوجوانوں کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے
