جامعہ مظاہر علوم کے شیخ الحدیث ، محدث جلیل مولانا شیخ محمد یونس جونپوری کے انتقال پر ایک تعزیتی جلسہ
لکھنو : 12 جولائی (اشرف زین ) دار العلوم ندوة العلماءمیں جامعہ مظاہر علوم سہارنپور کے شیخ الحدیث ، محدث جلیل مولانا شیخ محمد یونس جونپوری کے انتقال پر ایک تعزیتی جلسہ ہوا ، اس میں ناظم ندوة العلماءمولانا سید محمد رابع حسنی ندوی نے کہا : مولانا محمد یونس اور عظیم محدث اور باکمال استاذ تھے ، انہوں نے پوری زندگی علم حدیث کے لئے وقف کردی تھی،اور اس کے لئے دنیا کے دوسرے پہلوو ¿ں سے دور کر لیا تھا ، ان کی شخصیت کی تشکیل میں ایسے اساتذہ تھے، جنھوں نے ان کو اس عظیم مشن کے لئے تیار کیا ، حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی کے خاص شاگرد تھے ،انہوں نے اپنی توجہ خاص سے مولانا محمد یونس کو یگانہ روزگار بنا دیا تھا ، اور اپنی زندگی میں ان کو شیخ الحدیث کا منصب ان کے حوالہ کیا،مولانا نے کہا : دار العلوم ندوة العلماءسے مولانا محمد یونس کا تعلق بہت گہرا تھا ، جو قابل قدر بھی ہے اور قابل فخر بھی، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندویؒ سے نیاز مندانہ تعلق رکھتے تھے، اسی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مولانا یونس کا تعلق جونپور سے تھا ، اور جونپور اور اس کے اطراف میں مولاناکے خانوادہ کے ایک بزرگ مولانا امین نصیر آبادی کی دعوتی کوششوں کا زبردست اثر ہے، گویا مولانا بھی انھیںکا نتیجہ تھے ۔ مہتمم دار العلوم مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی نے کہا : مولانامحمد یونس سچے عاشق رسول تھے ، علم حدیث سے ان کا تعلق ایسااٹوٹ تھا کہ وہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہو گیا ، صحت وتندرستی ، بلکہ بیماری کے زمانہ میں بھی اس کو باقی رکھا ، اور اسی تعلق میں وہ دنیا سے رخصت ہوئے ، حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا کاندھلوی کی مجلسوں کے حاضر باش اور معتمد علیہ تھے ، تربیت اور معرفت الہی حضرت شیخ سے حاصل کیا ،اور خلافت بھی حاصل کی ،بخاری شریف کااکثر حصہ انہیں یاد تھا اور محدثین کے اقوال بھی انھیں ازبر تھے ،بغیر کتاب دیکھے ان کو سنادیا کرتے تھے ، حضرت شیخ سے علم حدیث سیکھااور اس کا حق ادا کیا ۔ دار العلوم ندوة العلماءکے استاذ حدیث مولانا محمد خالد ندوی غازیپوری نے کہا : مولانامحمد یونس جونپوری کا علم حدیث میں کو ئی ثانی نہیں ، وہ علم حدیث میں ید طولی رکھتے تھے ، ان کے درس کی نمایاں خوبی نکتہ آفرینی ہے ،وہ حدیث کی ایسی تشریح فرماتے تھے کہ کوئی اشکال باقی نہیں رہتا ، ان کی اسناد حدیث بہت اعلی درجہ کی ہیں ، انھوں نے تصنیفات کی لمبی فہرست تو نہیں چھوڑی ، لیکن اپنے پیچھے شاگردوں کا ایساگروہ چھوڑا،جو روحانی اولاد کے قائم مقام ہے ۔مولانا کاعلمی خاندان مدرسہ اور اس کے افراد تھے ۔ مولاناشیخ یونس کے شاگرد مولانا مفتی قاری محمد ریاض مظاہری کی تلاوت سے جلسہ کا آغاز ہوا ،اور مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کی دعاءپر اختتام ہوا ۔ اس جلسہ میں مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی ، مولانا شمس الحق ندوی ، مولانا مفتی عتیق احمد بستوی ، مولانا محمد عمیس ندوی ، مولانا حسب اللہ ندوی ، مولانا محمود حسن حسنی ندوی ،مولانا عبد الرشید راجستھانی ندوی ، مولانا ڈاکٹر محمدفرمان ندوی ، مولانا عبد اللہ مخدومی ندوی، اور دیگر اساتذہ سمیت محمد اشرف زین وکارکنان دارالعلوم وجمیع طلباءموجود تھے