AMN

آنگ سانگ سوچی گرچہ میانمار کی سیاست میں غیر معمولی کردار ادا کرتی آئی ہیں اور آئندہ بھی ملکی سیاست کا ایک اہم حصہ رہیں گی تاہم وہ ملک کی صدر نہیں بن سکیں کیونکہ میانمار کے آئین کے تحت غیر ملکی بچوں کے والدین ملک کے صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ آنگ سو چی ایک برطانوی شہری کی بیوی اور برطانوی شہریت رکھنے والے بچوں کی ماں ہیں

میانمار میں پچاس سال سے زائد عرصے کے بعد پہلی بار ایک سویلین سویلین حکومت قائم ہوگئی ہے. ٣٠ مارچ کو میانمار کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے رہنما ہیٹن کیاو صدر کے عہدے کا حلف اُٹھایا۔

ہیٹن کیاو تھین سین کی جگہ صدارتی منصب پر فائض ہوئے ہیں۔ میانمار میں اس بڑی سیاسی تبدیلی کے پیچھے صدر تھین سین کی طرف سے گزشتہ پانچ سالہ دور حکومت میں متعارف کروائی جانے والی اہم سیاسی اصلاحات کارفرما ہیں۔

ساتھ ہی امن نوبل انعام یافتہ اور نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) ہی کی رہنما آنگ سانگ سوچی کو میانمار کے خارجہ امور کا وزیر مقرر کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سوچی وزیر تعلیم بھی ہوں گی اور صدر کے دفتر کی وزیر کی حیثیت سے بھی ملک کی سیاست میں غیر معمولی کردار ادا کریں گی۔

میانمار میں 2011 ء میں صدر تھین سین نے کئی دہائیوں کی فوجی آمریت کے بعد ایک سویلین صدر کی حیثیت سے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔

گزشتہ برس میانمار میں ہونے والے تاریخی انتخابات جنہیں شفاف سمجھا جاتا ہے، آنگ سانگ سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی ایک بڑی کامیابی کا سبب بنے۔ اس الیکشن میں اس پارٹی نے 80 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اس طرح یہ پارلیمان کی سب سے بڑی اکثریتی جماعت بن کر اُبھری۔

صدارتی عہدہ سنبھالنے کے بعد ہیٹن کیاو نے پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’میں اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت کی اولین ترجیح قومی مفاہمت،امن، سماجی اور معاشی ترقی کی پالیسی ہو گی اور ہم ایک
ایسا آئین پیش کریں گے جو جمہوریت اور وفاقی نظام پر مبنی ہو۔‘‘

دریں اثناء آنگ سانگ سوچی نے 17 یونین وزراء ، آئینی ٹریبیون یا عدالت کے اراکین اور میانمار کے یونین الیکشن کمیشن کے ممبران کے ہمراہ خود بطور وزیر خارجہ اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔ نپیدا میں تقریب حلف برداری کے موقع پر پارلیمان میں دو نائب صدور نے بھی عہدے کا حلف اُٹھایا۔ ان میں سے ایک کی نامزدگی میانمار کی فوج کی طرف سے کی گئی تھی۔

میانمار میں 1962ء میں ایک فوجی بغاوت کے بعد سے اس ملک میں فوج کا عمل دخل بہت زیادہ رہا ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں پہلی بار ایک آزاد الیکشن کا انعقاد ہوا۔ اس سے قبل 1990ء میں ہونے والے الیکشن کو فوجی جنتا نے منسوخ کر دیا تھا۔

آنگ سانگ سوچی گرچہ میانمار کی سیاست میں غیر معمولی کردار ادا کرتی آئی ہیں اور آئندہ بھی ملکی سیاست کا ایک اہم حصہ رہیں گی تاہم وہ ملک کی صدر نہیں بن سکیں کیونکہ میانمار کے آئین کے تحت غیر ملکی بچوں کے والدین ملک کے صدر کا عہدہ نہیں سنبھال سکتے۔ آنگ سو چی ایک برطانوی شہری کی بیوی اور برطانوی شہریت رکھنے والے بچوں کی ماں ہیں۔