بھارت میں اعلیٰ تعلیم کی رسائی تو بڑھی ہے مگر معیار محض چند اداروں تک محدود ہے۔ملک بھر میں سرکاری یونیورسٹیوں میں پرانی عمارتیں، ناکافی فنڈنگ، اساتذہ کی ہزاروں خالی آسامیاں، اور کمزور ریسرچ انفراسٹرکچر طلبہ کو بیرونِ ملک تعلیم پر مجبور کر رہا ہے۔تین کروڑ سے زیادہ طلبہ سالانہ اعلیٰ تعلیم کا حصہ بنتے ہیں، مگر عالمی سطح پر بھارت صرف چند ”آئی آئی ٹیز“ اور ”آئی آئی ایمز“ کے ذریعے پہچانا جاتا ہے۔

عندلیب اختر
بھارت میں بیرونِ ملک تعلیم کا رجحان گزشتہ ایک دہائی میں جس رفتار سے بڑھا ہے، وہ نہ صرف تعلیمی نظام کی ساختیاتی کمزوریوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ایک بڑے معاشی عدم توازن کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ نیتی آیوگ کے تازہ ترین رپورٹ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اپنے طلبہ کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں بھیجنے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے، لیکن دوسری طرف اتنی تعداد میں غیر ملکی طلبہ بھارت کی طرف راغب نہیں ہو رہے۔ یہ فرق نہ صرف تعلیمی معیار کی بحث چھیڑتا ہے بلکہ ملک کے لیے زرمبادلہ کے بھاری اخراج کا باعث بھی بن رہا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے کہ ایک غیر ملکی طالب علم کے مقابلے میں 19 بھارتی طلبہ بیرونِ ملک پڑھنے جاتے ہیں، جبکہ 2021 میں یہ تناسب 1:24 تک پہنچ گیا تھا—جو اب تک کا منفی ترین ریکارڈ ہے۔ 2024 میں 13.3 لاکھ بھارتی طلبہ بیرونِ ملک تعلیم کے لیے روانہ ہوئے، یعنی بھارت عالمی سطح پر سب سے بڑی طلبہ برآمد کرنے والی طاقت بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں بین الاقوامی تعلیم ایک بڑی صنعت بن چکی ہے اور ممالک طلبہ کو راغب کرنے کے لیے تیزی سے مقابلہ کر رہے ہیں۔
بھارت میں داخل ہونے والے غیر ملکی طلبہ کی تعداد قومی سطح پر جمود کا شکار ہے۔ 2021–22 میں صرف 46,878 غیر ملکی طلبہ نے بھارتی اداروں میں داخلہ لیا جو کل اعلیٰ تعلیم میں داخلے کا محض 0.10 فیصد بنتا ہے۔ اس کے برعکس، کینیڈا میں غیر ملکی طلبہ کی شرح 39 فیصد، آسٹریلیا میں 31 فیصد، اور برطانیہ میں 22 فیصد تک ہے۔ عالمی سطح پر 2001 میں 2.2 ملین طلبہ اپنی سرحدوں سے باہر تعلیم حاصل کر رہے تھے، جو 2022 میں بڑھ کر تقریباً 7 ملین ہو گئے۔ اس دو دہائی کی تیز رفتار نمو میں بھارت صرف ایک طرف کھڑا نظر آتا ہے—وہ طلبہ بھیج رہا ہے، لیکن طلبہ کھینچ نہیں پا رہا۔
بھارت کا اپنا تعلیمی نظام اس عدم توازن کی بنیادی وجہ ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں نشستیں محدود، مقابلہ سخت، اور انفراسٹرکچر دہائیوں سے دباؤ کا شکار ہے۔ سالانہ تین کروڑ سے زائد طلبہ مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں، مگر عالمی معیار کے اعتبار سے بھارت کے صرف چند اداروں کی موجودگی نظر آتی ہے۔ کئی ریاستی یونیورسٹیاں شدید فنڈنگ بحران کا سامنا کر رہی ہیں، اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں، ریسرچ کے مواقع کم ہیں، اور صنعت–اکیڈمیا شراکت انتہائی کمزور ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ متوسط طبقے کے لاکھوں طلبہ بھارت میں اپنے مستقبل کو غیر یقینی دیکھتے ہیں اور بیرونِ ملک تعلیم کو بہتر مواقع کی ضمانت سمجھتے ہیں۔
اسی پس منظر میں بھارتی طلبہ بیرونِ ملک تعلیم کے لیے بھاری رقوم خرچ کر رہے ہیں۔ 2023–24 میں صرف چار ممالک—کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا—میں بھارتی طلبہ نے 34 ارب امریکی ڈالر خرچ کیے۔ نیتی آیوگ کا کہنا ہے کہ یہ رقم 2025 تک 70 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ اخراجہ اب بھارت کی GDP کا تقریباً 2 فیصد بنتا ہے، جو ایک بڑے معاشی خطرے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بیرونِ ملک ترسیلات کے تحت تعلیم کی مد میں بھیجی گئی رقوم میں گزشتہ دہائی میں 2,000 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دوسری جانب بھارت میں آنے والے غیر ملکی طلبہ کی جغرافیائی تقسیم بھی تبدیل ہو رہی ہے۔ کرناٹک، جو کبھی بین الاقوامی طلبہ کا سب سے بڑا مرکز تھا، اب تیزی سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ 2012–13 میں 13,182 غیر ملکی طلبہ یہاں زیرِ تعلیم تھے، جو 2021–22 میں کم ہو کر صرف 5,954 رہ گئے۔ تمل ناڈو کی مقبولیت بھی گھٹ رہی ہے۔ اس کے برعکس پنجاب، گجرات، اتر پردیش اور آندھرا پردیش نے قابلِ ذکر اضافہ ریکارڈ کیا ہے جہاں نجی یونیورسٹیوں کی تیز رفتار بڑھوتری اور جارحانہ مارکیٹنگ غیر ملکی طلبہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔
طلبہ کے پس منظر میں تبدیلی بھی قابلِ ذکر ہے۔ نیپال تاحال سب سے بڑا ذریعہ ہے، مگر افریقی ممالک—خصوصاً نائجیریا، زمبابوے اور تنزانیہ—سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ روایتی ممالک جیسے ایران، عراق اور ملائیشیا کی دلچسپی کم ہو رہی ہے۔ انجینئرنگ اب بھی سب سے پسندیدہ شعبہ ہے، لیکن MBBS میں داخلے مسلسل گھٹ رہے ہیں کیونکہ بہتر مواقع اب بیرونِ ملک دستیاب ہیں۔
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ عدم توازن صرف مالی مسئلہ نہیں بلکہ ”صلاحیتوں کے انحراف” کا بحران بھی ہے۔ بھارت ہر سال لاکھوں باصلاحیت نوجوان بیرونِ ملک بھیجتا ہے جن میں سے بڑی تعداد واپس نہیں آتی۔ یہ صورتحال بھارت کے لیے علمی، تحقیقی اور ساکھ کے اعتبار سے بھی نقصان دہ ہے۔ اگرچہ حکومت نے NEP 2020، UGC کی Twinning اسکیم، غیر ملکی یونیورسٹیوں کے کیمپس، اور GIFT سٹی میں عالمی اداروں کی آمد جیسے اقدامات کیے ہیں، مگر زمینی حقائق یہی بتاتے ہیں کہ ویزا مسائل، کمزور کیمپس سہولیات، طلبہ خدمات کی کمی، ریسرچ کے کمزور مواقع، اور عالمی سطح پر برانڈنگ کی کمی ابھی تک بڑے رکاوٹیں ہیں۔بھارت واقعی ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر اعلیٰ تعلیم کے نظام کو عالمی معیار کے مطابق تبدیل نہ کیا گیا، تو آنے والے برسوں میں یہ عدم توازن مزید بڑھ سکتا ہے۔ یہ نہ صرف بھارت کے تعلیمی مستقبل کے لیے چیلنج ہے بلکہ معاشی ترقی اور عالمی ساکھ کے لیے بھی۔
,
