ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
نریندر مودی کی سرکار میں بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ جن کو چناوی میدان میں اپنی مہارت کی وجہ سے ان کے مداح چانکیہ کہہ کر پکارتے ہیں آج کل پورے فورم میں ہیں۔ ان کی چناوی رن نیتی کیا ہے، اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اور ان کے حمایتی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر دیش کے چناؤ کو ہندو مسلم خانے میں بانٹ دیا جائے اور مسلمانوں کے خلاف جتنی نفرت اور عداوت ممکن ہو اس کا اظہار کیا جائے تو ہندوؤں کے ایک بڑے طبقے کو گول بند کرنے میں آسانی ہوگی کیونکہ کم و بیش ایک سو سال سے جو زہر مسلمانوں کے خلاف ذہنوں میں اتارا جارہا تھا وہ دھیرے دھیرے عام ہندو عوام میں بھی سرایت کرگیا ہے اور وہ حکومت کی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھالے بغیر بھر بھر کر ای وی ایم میں اپنا ووٹ بی جے پی کو دے دیں گے اور ان کی جیت یقینی ہوجائے گی۔

جن جن ریاستوں میں بی جے پی کی سرکاریں ہیں وہاں بہ طور سرکاری پالیسی کے روبعمل لایا جارہا ہے۔ اور جہاں نہیں ہے وہاں ایسا ماحول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سے زیادہ کارگر اور آسان رن نیتی کوئی نہیں ہوسکتی ہے۔
ابھی حالیہ دنوں میں ہمارے وزیر داخلہ نے تین بڑی باتیں کہی ہیں۔ کرناٹک میں حجاب اور ٹیپو سلطان وغیرہ پر فرقہ واریت کو ہوا تو پہلے سے ہی دی جارہی تھی۔ مگر شاید بی جے پی قیادت کو لگا کہ اس سے کام نہیں بنے گا تو انھوں نے ۲۷۹۱ء سے جاری ہانورکمیشن کی رپورٹ کے مطابق سبھی مسلمان خاندانوں کو جن کی سالانہ آمدنی دو لاکھ سے کم تھی ان کو انتائی پس ماندہ مان کر ان کو 4% ریزرویشن دیا گیا تھا۔ جس کو کرناٹک کی موجودہ بی جے پی حکومت نے مرکزی حکومت کے اشارے پر الیکشن سے ٹھیک پہلے ختم کردیا اور اس ریزرویشن کو وہاں لنگایت اور کنڈا ڈیگا میں بانٹ دیا گیا، اور یہ کہا گیا کہ ہم مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کے قائل نہیں ہیں۔ یہ معلوم نہیں کہ جن سماجی اکائی کو یہ تحفہ دیا گیا ہے ان کا کوئی مذہب ہے یا نہیں ہے۔ اگر ان کا مذہب ریزرویشن حاصل کرنے میں مانع نہیں ہے تو صرف مسلمانوں کو سنگل آؤٹ کرنے کا کیا مطلب ہے؟ مگر یہ سیاست ہے جہاں ظلم بھی جان بوجھ کر کیا جاتا ہے۔
اسی طرح جناب امت شاہ نے تلنگانہ کی ایک چناوی ریلی میں اعلان کیا کہ اگر اپنی حکومت بنانے کا موقع ملا تو تلنگانہ میں مسلمانوں کو جو ریزرویشن حاصل ہے وہ ان سے چھین لیں گے۔ یہ ہے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا عملی مفہوم۔ یہ وکاس کا نیا ماڈل ہے جو80%کو ہی پورا پندوستان مانتا ہے۔ 20% اس کے دائرے سے باہر ہے، چاہے اس کا ڈی این اے کچھ بھی ہو۔


اب تیسری بات جو انھوں نے کہی کہ اگر کرناٹک میں بی جے پی کی سرکار نہیں بنی تو وہاں فرقہ وارانہ فساد ہوں گے۔ اس کا مطلب تو امت شاہ ہی بتاسکتے ہیں۔ یہ کھلی دھمکی کوئی اور نہیں ملک کا وزیر داخلہ دے رہا ہے۔ اس کو نہ الیکشن کمیشن روک سکتا ہے اور نہ سپریم کورٹ۔ اس ایک بیان سے بھارت میں فساد کی پوری سیاست اور اس کا میکنزم واضح ہوکر سامنے آجاتا ہے۔ مگر میں ایک بات پوچھناچاہتا ہوں۔ ہمارے ملک میں جو کوئی آدمی کسی آئینی عہدہ حاصل کرتا ہے اس وقت وہ ایک حلف لیتا ہے، جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ دیش کے سمویدھان کے پرتی سچی شردھا رکھوں گا اور دیش کی سورنٹی اور اکھنڈتا کو بنائے رکھوں گا اور سنگھ کے منتری کے روپ میں اپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ ادا کروں گا۔ اور خوف، جانب داری، انوراگ اور دویش کے بنا سبھی طرح کے لوگوں کے ساتھ سمویدھان اور قانون کے مطابق انصاف کروں گا۔


کیا کوئی ہمارے موجودہ حکمرانوں سے پوچھ سکتا ہے کہ ان کا اچرن ان کے ذریعے لیے گئے اس حلف کے مطابق ہے۔ یا چانکیہ نیتی اور میکاولی کی پالیسی کے مطابق حکمرانوں کو اخلاق اور مورلیٹی کا پابند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ انگریزی میں ایک کہاوت ہے گائے کی طرح نظر آؤ اور لومڑی کی طرح چال چلو۔ میں جناب امت شاہ جی سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کو اپنے پد کی مریادا کا خیال نہیں ہے لیکن ہم اپنے دیش اور بھارت کے لوگوں سے غداری نہیں کرسکتے۔ اگر ہمارے حصے کی روٹی چھین کر آپ کا پیٹ بھر سکتا ہے تو ہم خوشی خوشی اپنا حصہ آپ کو دے سکتے ہیں۔ ایک بار مانگ کر تو دیکھئے۔ابا جان پچھلے کئی صدیوں سے مختلف سرکاروں کے ظلم، نا انصافی اور نامہربانیوں کو جھیلنے کے عادی رہے ہیں۔ اس کو بھی جھیل لیں گے۔ آپ اپنی چنتا کیجیے ہم کو ہمارے حال پر چھوڑ دیجیے۔

کالم نگار اردو کی بیسٹ سیلر بک’اکیسویں صدی کا چیلنج اور ہندوستانی مسلمان- بند گلی سے آگے کی راہ‘ کے مصنف اور سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل ہیں ۔