یہ ایک عام بحث ہے کہ ہندوستانی نژاد لوگ بیرون ملک بڑی کمپنیوں سے لے کر ملک تک سنبھال رہے ہیں۔ کیا ایسے باصلاحیت لوگوں کے لیے ملک میں حالات تیار نہیں کرنا چاہیے؟
اجیت بالاکرشنن
کچھ دن پہلے، جب رشی سنک برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، تو ہم میں سے بہت سے ہندوستانیوں کی خواہش تھی کہ ہم ونسٹن چرچل کی ایک جھلک دیکھ سکیں، جو شاید آکسفورڈ شائر کے سینٹ مارٹن چرچ یارڈ میں اپنی قبر میں کروٹ بدل رہے ہونگے۔ تاہم، سنک کے وزیر اعظم بننے کے بعد، سوشل میڈیا پر ملک بھر کے دوستوں کے پیغامات کا سیلاب آگیا: ‘کیا آپ جانتے ہیں کہ گوگل اور مائیکروسافٹ کے سربراہان بھی ہندوستانی نژاد ہیں۔’
ظاہر ہے اس پر میں کہتا ہوں کہ یہ معاملہ ملک کے ٹیکنیکل سیکٹر سے متعلق ہے تو میں کیسے نہ جان سکتا تھا۔ اسی دوران ایک اور قسم کا پیغام آنے لگا: ‘کیا آپ جانتے ہیں کہ پرتگال کے وزیر اعظم ہندوستانی ہیں اور ہم شرط لگاتے ہیں کہ آپ کو معلوم نہیں تھا کہ آئرلینڈ کے حالیہ وزیر اعظم بھی آدھے ہندوستانی ہیں۔
امریکہ کا نائب صدر بھی آدھا ہندوستانی ہیں۔’کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ جب پوری دنیا میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے، ہمارے ہی ملک میں بڑے بڑے کاروبار مالکان کے بیٹوں کے پاس ہیں، بالی ووڈ بڑی فلموں میں ان کے بچے ہیں۔ فلمی ستارے یعنی گزشتہ برسوں کے ستاروں کے بیٹے بیٹیاں نظر آتے ہیں اور ہر بڑی سیاسی پارٹی میں سیاستدانوں کے بیٹے نظر آتے ہیں۔ یہ وہی ہے جس پر میں پچھلے ہفتے سے غور کر رہا ہوں، اس پریشان کن تضاد کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
ہندوستان کا اعلیٰ تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے میرٹ کی بنیاد پر داخلے کے نظام پر عمل پیرا ہے۔ اس کی کوشش ہے کہ اس جاگیردارانہ سماجی نظام سے نجات حاصل کی جائے جو آزادی کے وقت موجود تھا۔ لیکن اب ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ہمارے میڈیکل، انجینئرنگ، مینجمنٹ اور اس طرح کے دیگر اداروں کے بہت سے اعلیٰ گریجویٹ ہندوستان سے باہر اپنے لیے کیریئر کے مواقع تلاش کرتے ہیں جب کہ ہمارے کاروباری گھرانے، سیاسی جماعتیں اور دیگر ادارے اب بھی باپ سے بیٹے یا بیٹی کو وراثت منتقل کرنے میں جاگیردارانہ نظام پر عمل کر رہے ہیں۔
جب میں اپنی یادداشت کو تلاش کرتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ 1960 کی دہائی تک میرے رشتے کے تمام بہن بھائی جنہوں نے میڈکل کی تعلیم حاصل کی تھی امریکہ جا چکے تھے۔ مجھے ابھی پتہ چلا کہ یہ صرف میرے بہن بھائیوں کے ساتھ نہیں ہوا۔ 2008 کے ایک مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 1989-2000 کے درمیان، ہندوستان کے اعلیٰ ترین میڈیکل کالج، نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز سے 54 فیصد میڈیکل گریجویٹس امریکہ گئے۔
جہاں تک آئی آئی ٹی سے فارغ التحصیل افراد کا تعلق ہے، کئی مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے تقریباً 20 فیصد مزید تعلیم مکمل کرنے کے لیے ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، لیکن اس دوران یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 25،000 سے 30،000 آئی آئی ٹی گریجویٹس 1950 کی دہائی سے امریکہ میں مقیم ہیں۔
انڈسٹری کی ایک ویب سائٹ نے حال ہی میں سافٹ ویئر انجینئرز پر ایک مطالعہ کیا جس کے مطابق امریکہ اور ہندوستان میں تنخواہ کا تناسب 2:1 ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ اجرت کا فرق ہندوستان کی سافٹ ویئر فرنٹیئر انڈسٹری کی 200 بلین ڈالر کی برآمد اور 50 لاکھ لوگوں کے روزگار کے پیچھے بھی ایک عنصر ہے۔ واقعات کا وہ کون سا سلسلہ ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوستانیوں اور ہندوستانی علم سے چلنے والی کمپنیوں کو خوش قسمتی کے لیے بیرون ملک دیکھنے اور گھریلو مارکیٹ کو خاندانی کاروبار کے جاگیردارانہ ڈھانچے پر چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے؟ کیا اس کی وجہ ڈالر اور روپے کی شرح تبادلہ ہے؟ جب میں نے 1970 کی دہائی میں کام کرنا شروع کیا تو یہ شرح 8 تھی اور اب 80 سے تجاوز کر چکی ہے۔
مجھے نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ کی ایک رپورٹ یاد آتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ایسے گھرانوں کی تعداد جن کے سربراہ انتظامی ذمہ داری کے ساتھ کہے جا سکتے ہیں تین کروڑ تھے اور ان کی اوسط آمدنی بمشکل 13000 روپے ماہانہ تھی۔ اگلا اعلیٰ زمرہ یعنی پیشہ ورانہ اور تکنیکی زمرہ تقریباً پانچ کروڑ خاندانوں پر مشتمل تھا اور ان کی ماہانہ خاندانی آمدنی بھی تقریباً 13,000 روپے ماہانہ تھی۔
میں یہ اعداد و شمار مستقبل کے بارے میں مایوسی کی عکاسی کرنے کے لیے پیش نہیں کر رہا ہوں، بلکہ یہ کہنا چاہوں گا کہ تاریخی طور پر بڑی
تبدیلی اسی وقت ہوتی ہے جب حقیقی جدت اور مصنوعات ہوں جو لاگت کو مؤثر طریقے سے تبدیل کر سکیں۔ مثال کے طور پر، 1906 میں، ہنری فورڈ نے اپنی پہلی کار متعارف کروائی اور لوگوں کو گھوڑا گاڑی سے دور کر دیا۔ ایسا ہوا کہ ایک سال کے لیے اس کی گاڑی خریدنے اور چلانے کی لاگت $1,364 تھی، جب کہ گھوڑا گاڑی کے لیے $2,180۔ اس طرح اس نے منافع بھی کمایا۔ اس طرح حقیقی جدت طرازی ہوتی ہے اور اعلیٰ معیار کی ملازمتوں کے ساتھ ایک مارکیٹ بناتی ہے۔
ہمیں اس بات سے بھی آگاہ ہونے کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ سے متعلقہ ٹیکنالوجیز میں جدت کا اگلا دور زور پکڑ رہا ہے اور چیٹ بوٹس جیسی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے تقریباً انسانوں کی طرح کام کرنا شروع کر دیا ہے، اس لیے کال سینٹر کی ایک بڑی تعداد کی ملازمتیں اور ملازمین خطرے میں ہوں گے۔ اگرچہ ان خطرات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری بڑی ٹیک کمپنیاں ڈیجیٹل تبدیلی کا طریقہ اپنا رہی ہیں اور غیر ملکی کمپنیوں کو اپنا انٹرنیٹ پر مبنی کاروبار چلانے کے لیے تکنیکی افرادی قوت کی خدمات فراہم کر رہی ہیں۔
کیا یہ اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ہندوستان کی مقامی مارکیٹ تکنیکی طور پر پیچیدہ چیزوں کے لیے یہ بہت چھوٹا ہے اور اس کے نتیجے میں ہندوستانی ٹیک کمپنیاں بہتر ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی اختراع پر مبنی نقطہ نظر سے دور رکھیں اور صرف غیر ملکی کمپنیوں کو مزدور خدمات فراہم کرنے پر توجہ دیں۔
ہم یہ کر سکتے ہیں کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے یا غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت یا روزگار کے مواقع پیدا کرنے جیسے مسائل پر بحث کے لیے سینکڑوں کمیٹیاں قائم کرنے کے بجائے اس بات پر توجہ مرکوز کریں کہ جدت سے پیدا ہونے والی مصنوعات اور خدمات کے لیے ایک ملک میں بڑی منڈی کیسے بنائی جا سکتی ہے۔ کیا ہمیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ ہمارا بہترین ٹیلنٹ بیرون ملک جانے کے بجائے ہندوستان میں رہے اوراندرونی مارکیٹ میں جدت طرازی کو آگے بڑھایا جائے؟ (Rediff.com)