
مہیر شرما
گزشتہ ایک سال کے دوران اگر کسی بات نے گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاروں سب سے زیادہ کنفیوز اورحیران کیا ہے تو وہ ہے ’آتم نربھر بھارت‘۔ آتم نربھر یعنی خود کفیل کا عملی مطلب کیا ہے؟ گزشتہ برس لاک ڈاون کے دوران جب سے وزیر اعظم نے اس لفظ کا استعمال کیا ہے اس وقت سے سرکار کی طرف سے ملے جلے اشارے دیے گئے ہیں۔ کچھ افسران اور وزیروں نے کہا کہ یہ ملک کی پیداواری صلاحیت بڑھانے یا گھریلو مانگ میں اضافے کی کوشش ہے۔ کچھ نے دعوی کیا کہ یہ چین کے مینوفیکچرنگ سیکٹر اور اس کے وسائل سے آزاد ہونے کی کوشش ہے۔ وزیر اعظم بھی اس میں مدد گار ثابت نہیں ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں اپنے ’من کی بات‘ پروگرام میں انہوں نے کہاکہ‘آتم نربھر بھات اقتصادی پروگرام نہیں بلکہ قومی جذبہ ہے جو گاوں گاوں تک پہنچ گئی ہے۔
کیا ایسا نعرہ جس کی اتنی باہم مختلف تشریحات ہوں، وہ کام کا بھی ہوسکتا ہے؟ یا وہ ایڈمنسٹریٹروں اور سرمایہ کاروں دونوں کو غلط فیصلے کی سمت لے جائے گا؟ کھلونوں کے لیے نئی پالیسی سے لے کر ری سائیکلنگ، کپڑوں کے ایکسپورٹ اور جغرافیائی صورت حال سے وابستہ شعبے تک تمام کے سلسلے میں یہی نعرہ دیا جارہا ہے جو اسے غیر عملی بناتا ہے۔ کچھ لوگوں کا دعوی ہے کہ آتم نربھرتا تحفظ پسندی (پروٹیکشن ازم)کے یکسر برخلاف ہے۔
مشکل یہ ہے کہ کنفیوزن والے اس نعرے کی وجہ سے بیوروکریٹوں نے اس کا مطلب کنٹرول نکال لیا۔ کئی سیکٹروں کو پیداوار سے متعلق ترغیباتی اسکیموں کے لیے منتخب کیا جانے لگا۔ یقیناً ان میں سے کچھ درست ہوں گے اور وہ ترقی اور روزگار میں مدد گار ہوں گے لیکن کچھ نہیں بھی ہوں گے۔ لیکن کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو حکومت ہند کے شعبوں اور کارپوریٹ کے سلیکشن کی صلاحیت پر یقین کرے گا۔ ماضی میں ایسی تمام کوششیں ناکام رہی ہیں۔ یہ ٹھہراو، بدعنوانی اورلابنگ کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
کنزیومروں کو بھی کم معیار والی چیزیں مہنگی قیمتوں پر ملتی ہیں۔ ٹیریف ریٹ پالیسی بھی اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ کچھ وقت پہلے ہندوستان نے ٹیریف بڑھا کر اسٹیل کی مصنوعات کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب خام مال کی شکل میں کمپنیوں کی مدد کے لیے کچھ اسٹیل مصنوعات کے لیے شرحیں کم کی گئی ہیں۔ یہ کاروبار کا مناسب طریقہ نہیں ہے۔اگر ایسی تبدیلیاں پوری طرح شفاف ہوں تب بھی یہ طے شدہ مارکیٹ رجحانات سے الگ ہوتے ہیں۔ اس سے بازار مسابقت کے بڑھنے کے بجائے بیوروکریٹوں کے پاس شکایت کرنے کا رجحان بڑھے گا۔ اس کا نقصان ترقی اور صارفین دونوں کو ہوگا۔
یہ ملک کو گلوبل پرائس سریز میں شامل کرنے کی کوششوں کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ بیوروکریٹ اور پالیسی ساز شاید ماضی میں جی رہے ہیں جب ملک ایک دوسرے پر منحصر نہیں تھے او رچیزیں انتہائی عام طریقے سے پیدا کی جاتی تھیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ چنندہ اعلی ویلو ایڈیڈ چیزیں سودیشی خام مال سے تیار ہوں گی۔ ان چیزوں کی پیداوار ی صلاحیت بڑھانے کے لیے خام مال کی ٹیریف کو نشانہ بنانا نقصان دہ ہوگا۔ پالیسی ساز یہ با ت سمجھ نہیں پائے۔
یہاں ہندوستانی مارکیٹ کا سائز ایک فیصلہ کن عنصر ہے۔ آتم نربھرتا کا مطلب عالمی مارکیٹ سے منہ موڑنا نہیں ہے۔ بغیر عالمی بازار اور عالمی مانگ کا فائدہ اٹھائے ہم آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ لیکن کوئی کمپنی اس وسیع تر منظر نامے پر توجہ نہیں دیتی۔ وہ گھریلو بازار میں حصہ داری بڑھاکر پیسے کمانا چاہیں گی۔ جیسا کہ ہرش وردھن نے کہا ”ہندوستان جیسے ملک میں پروٹیکشن ازم سسٹم میں کام کرنے والے مصنوعات کی ابتائی توجہ ایکسپورٹ پر نہیں بلکہ گھریلو بازار پر ہوتی ہے۔ درآمداتی تحفظات سے لاگت میں اضافہ ہوتا ہے کیوں کہ گھریلو خام مال مہنگا ہوتا ہے۔ جب کہ جو چیزیں ملک میں پیدا نہیں ہوپاتی ہیں ان پر کافی زیادہ ٹیرف لگتا ہے۔ گلوبل پرائس سریز اور ایکسپورٹ کو کفایتی پروڈکٹس چاہئے اور امپورٹ پروٹیکشن ازم اس کے برخلاف کام کرتا ہے۔ درآمد کی لاگت بڑھنے سے برآمد پر اثر پڑتا ہے اور یہ صارفین، مسابقت اور ترقی کو متاثر کرتا ہے۔اس کے باوجود ہم نے پانچ سال میں پروٹیکشن ازم کو اپنایا ہے اور ترقی او رنجی سرمایہ کاری کے محاذ پر کچھ بھی مثبت نہیں۔ یہ آتم نربھر بھارت کا ایک اور معمہ ہے۔ ہمارے پاس اتنی مالی بچت نہیں ہے کہ ہم نجی سرمایہ کاری کو اتنا فروغ دے سکیں کہ اعلی ترقی کی شرح حاصل ہوسکے۔
بانڈ بازار میں پہلے ہی اتھل پتھل ہے۔ کریسیل کا انداز ہ ہے کہ اونچی ریٹنگ والی کمپنیوں کے لیے بھی آنے والے دنوں میں بانڈفائنانسنگ میں پانچ لاکھ کروڑ روپے کا فرق رہے گا۔ جس کی بھرپائی غیر ملکی سرمایہ سے کرنی ہوگی۔ جہاں تک بات ہے نئی سرمایہ کاری اورپروجیکٹوں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے کی تو گھریلو پرائیوٹ سرمایہ کافی کم ہے۔ مشرقی ایشیا، چین اور یورپ سمیت دنیا کے کسی ملک نے بغیر غیر ملکی سرمایہ کے ترقی نہیں کی۔ اس کے باوجود حکومت غیر ملکی پونجی کے ساتھ سوتیلا رویہ اپنا رہی ہے۔ دیسی سرمایہ کو صرف یہیں سرمایہ کاری کرنی ہوگی جب کہ غیر ملکی سرمایہ کے پاس پوری دنیا ہے۔ یہ شکایت اکثر سننے کو ملتی ہے کہ چین غیر ملکی سرمایہ کا خیر مقدم کرتا ہے جب کہ ہندوستان نہیں کرتا۔ حالیہ برسوں میں اس شکایت میں اضافہ ہوا ہے۔کیونکہ حکومت نے غیر ملکی کمپنیوں کے سرمایہ کے بعد ضابطے تبدیل کردیے۔ ڈیجیٹل ای کامرس اس کی مثال ہے۔ لیکن سب سے برااشارہ ہے حکومت کا ماضی کے ٹیکس دعووں پر قائم رہنا جبکہ سامنے والا ٹریبونل میں کیس جیت چکا ہے۔ کیرن انڈیا او رووڈا فون اس کی مثالیں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ فیصلے کرنے والے غیر ملکی سرمایہ کاری کو دور بھگانا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ترقی کے لیے بہت اہم ہے۔
ایکسپورٹ او رنئی پروجیکٹوں کے بارے میں بات کرنے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوگی بلکہ ملک کو اعلی ترقی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کی ضرورت ہے۔ آتم نربھر بھارت کی بحث سے ملک میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ بلکہ اس سے معاملہ خراب ہی ہوا ہے۔ میں اس کے سیاسی اثرات پر بات نہیں کرسکتا لیکن پالیسی فیصلے اور مستقبل میں بہبود کے نقطہ نظر سے دیکھیں تو میک ان انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا، کسانوں کی آمدنی دوگنا کرنے جیسے نعروں کی طرح اس نعرے کو بھی بھلانے کی ضرورت ہے۔(اے ایم این)