ہم قدرتی آفات کو روک نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم یقینی طور پر ان سے بچاؤ کی تیاری کر سکتے ہیں۔
عندلیب اختر
ترکی اور شام میں آنے والے زلزلوں، پاکستان میں آئے سیلاب اور میانمار اور بنگلہ دیش میں حالیہ طوفان موچا نے واضح کر دیا، آفات کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ پچھلی دہائی کے دوران، آفات سے دنیا کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں 750,000 سے زیادہ افراد ہلاک، 1.4 ملین زخمی، اور تقریباً 25 ملین بے گھر ہوئے۔مجموعی طور پر، 2 بلین سے زیادہ لوگ کسی نہ کسی طرح سے تباہی کا شکار ہوئے اور دنیا بھر میں اربوں ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے گزشتہ دنوں جنرل اسمبلی کو بتایا ہے کہ قدرتی آفات کے خطرے سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کمزور اور ناکافی ہے جس سے 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کا مقصد خطرے میں ہے۔
کو اپنانے کے 8 سال بعد، ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری ترقی ہمارے وقت کی فوری ضرورت کے مطابق نہیں رہی ہے۔سینڈائی فریم ورک دیگر 2030 ایجنڈا کے معاہدوں کے ساتھ کام کرتا ہے، جس میں موسمیاتی تبدیلی پر پیرس معاہدہ، ترقی کے لیے مالی اعانت سے متعلق ادیس ابابا ایکشن ایجنڈا، اور نیا شہری ایجنڈا شامل ہیں۔اس کی توثیق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2015 کی تیسری اقوام متحدہ کی عالمی کانفرنس آن ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن (WCDRR) کے بعد کی تھی۔یہ لوگوں، کاروباروں، برادریوں اور ممالک کے معاشی، جسمانی، سماجی، ثقافتی اور ماحولیاتی اثاثوں میں تباہی کے خطرے اور جانوں، معاش اور صحت میں ہونے والے نقصانات میں خاطر خواہ کمی کی وکالت کرتا ہے۔یہ تسلیم کرتا ہے کہ آفات کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ریاست کا بنیادی کردار ہے لیکن اس ذمہ داری کو دیگر اسٹیک ہولڈرز بشمول مقامی حکومت، نجی شعبے اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ بانٹنا چاہیے۔
گزشتہ دنوں جنرل اسمبلی میں رکن ممالک قدرتی آفات سے لاحق خطرات کی روک تھام کے لئے سینڈائی فریم ورک پر عملدرآمد کے حوالے سے پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے جمع ہوئے۔اجلاس میں رکن ممالک نے ایک سیاسی اعلامیے کی مں ظوری دی جس میں علاقائی اور قومی سطح پر آفات سے لاحق خطرے سے متعلق معلومات اور تجزیوں کے تبادلے کے لئے قومی طریقہ ہائے کار کو بہتر بنانے کے لئے کہا گیا ہے۔
نئی حکمت عملی کی ضرروت
اس موقع پر جنرل اسمبلی کے صدر سابا کوروشی کا کہنا تھا کہ یہ وسط مدتی جائزہ ”اجتماعی طور پر اپنی راہ تبدیل کرنے کے لئے 2030 سے قبل آخری موقع ہے”۔ انہوں نے اس معاملے میں عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ”ہمارے پاس آٹھ سال باقی ہیں اور ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہماری پیش رفت کی رفتار سست ہے۔ 2015 کے بعد آفات سے متاثرہ لوگوں کی معلوم تعداد 80 گنا بڑھ گئی ہے۔”
فیصلہ کن موڑ
اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل نے اجلاس کو بتایا کہ خطرے سے نمٹنا ہمارے لئے انتخاب نہیں بلکہ ایک عالمگیر عہد ہے۔امینہ محمد کا کہنا تھا کہ ”ہماری دنیا تاریخ کے ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ 2030 کی جانب نصف وقت گزارنے کے بعد ہمیں اعتراف کرنا چاہئیے کہ ہماری پیش رفت کمزور اور ناکافی ہے۔”انہوں نے کہا کہ ممالک نے موسمیاتی تبدیلی اور پائیدار ترقی سے متعلق اپنے وعدے پورے نہیں کئے جس کے نتیجے میں قدرتی حادثات نے لاکھوں جانیں لے لیں اور خواتین، بچوں اور دیگر کمزور لوگوں سمیت لاکھوں افراد کو بے گھر کر دیا جبکہ ان حادثات کو روکا جا سکتا تھا۔
کووڈ۔19 وبا، موسمیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آلودگی کے تہرے بحران اور رہن سہن کے اخراجات میں اضافے، تیزی سے بڑھتی عدم مساوات اور یوکرین کی جنگ نے اس صورتحال کو اور بھی بگاڑ دیا ہے۔بینکاری اور عالمگیر مالیاتی نظام میں انتظام سے متعلق بنیادی غفلت سے جنم لینے والے خطرات اس کے علاوہ ہیں جبکہ سائنس دان عالمی حدت کے پھیلتے اور ناقابل تلافی اثرات کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اجلاس کو بتایا کہ خطرے سے نمٹنا ہمارے لئے انتخاب نہیں بلکہ ایک عالمگیر عہد ہے۔
غیرمساوی پیش رفت
آفات کے خطرے میں کمی لانے سے متعلق اقوام متحدہ کے دفتر (یو این ڈی آر آر) کی سربراہ مامی میزوتوری نے کہا کہ 2015 کے بعد مثبت اقدامات بھی دیکھنے کو ملے ہیں۔مثال کے طور پر بڑھتی ہوئی تعداد میں حکومتوں نے قومی سطح پر نقصانات کا حساب رکھنے کے نظام قائم کئے اور انہیں بہتر بنایا ہے اور ایسے ممالک کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے جنہوں نے قدرتی آفات سے لاحق خطرے میں کمی لانے کے لئے قومی حکمت عملی تیار کی ہے۔تاہم اس حوالے سے پیش رفت بدستور غیرمساوی ہے۔ مزید برآں، تباہی کی صورت اختیار کر جانے والے خدشات دنیا کے کم ترین ترقی یافتہ ممالک، چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک، خشکی میں گھرے ترقی پذیر ممالک، افریقہ کے ممالک اور متوسط آمدنی والے ممالک کو غیرمتناسب طور سے متاثر کر رہے ہیں۔امینہ محمد نے کہا کہ ”خدشات پر توجہ نہ دیے جانے کے باعث آفات اور حادثات تیزی سے سامنے آ رہے ہیں اور ان سے نمٹنے کی ہماری صلاحیت ناکافی ثابت ہوئی ہے۔ ان آفات اور حادثات کے لوگوں، روزگار، معاشرے اور اس ماحولی نظام پر بڑھتے ہوئے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں جن پر لوگ انحصار کرتے ہیں۔
متاثرہ شخص کی داستان
ترکیہ کے مصطفیٰ کمال قلنچ نے اس نکتے پر مزید روشنی ڈالی جو فروری میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں بچ گئے تھے جس میں 50 ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔23 سالہ مصطفیٰ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ جب زلزلہ آیا تو وہ اپنے آبائی شہر ہاتاے میں اپنے خاندان سے ملنے گئے ہوئے تھے۔ زلزلے میں ہزاروں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور بے شمار لوگ بے گھر ہو گئے۔انہوں ں ے بتایا کہ ”میں آج یہاں اس لئے کھڑا ہوں کہ زلزلے کے وقت میں جس عمارت میں تھا وہ منہدم ہونے سے بچ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ٹھیکے دار نے
ہماری عمارت کو زلزلے سے محفوظ رکھنے کے لئے اسے اعلیٰ معیار پر تعمیر کیا تھا۔”زلزلے کے بعد مصطفیٰ سمیت ان کے خاندان کے سات لوگ ایک ہفتہ تک کار میں رہے اور انہوں نے ایک ٹرین کی بوگی میں منتقل ہونے سے پہلے منجمد کر دینے والی سردی اور شدید بارش کا سامنا کیا۔ بالاآخر وہ ملک کے دوسرے سرے پر واقع اپنے رشتہ داروں کے گھر منتقل ہو گئے اور کئی ہفتے بعد ہاتاے میں واپس آئے۔
مصطفیٰ نے کہا کہ ”ہم قدرتی آفات کے بارے میں پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم یقینی طور پر ان سے بچاؤ کی تیاری کر سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ کے کام کی بدولت دنیا بھر میں آنے والی قدرتی آفات اور حادثات میں میرے جیسے متاثرین کی تعداد پہلے سے کم ہو گی۔”
(اے ایم این)