
عندلیب اختر
رواں سال میں عالمی معیشت میں ترقی کی شرح 2.4 فیصد تک کم رہنے کی توقع ہے اور 2024 میں بھی حالات بہتر ہونے کے زیادہ امکانات دکھائی نہیں دیتے۔اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (انکٹاڈ) نے رواں سال دنیا میں تجارت و ترقی کی صورتحال پر اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ عالمی معیشت نازک دوراہے پر کھڑی ہے جہاں بعض معیشتیں ترقی اور وسعت پا رہی ہیں جبکہ دیگر مشکلات اور سست روی کا شکار ہیں۔یہ اعدادوشمار عالمی مالیاتی نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت اور مہنگائی، عدم مساوات اور بڑھتے ہوئے سرکاری قرضوں پر قابو پانے کے لیے مزید قابل عمل پالیسیوں اور اہم منڈیوں کی نگرانی میں اضافے کا تقاضا کرتے ہیں۔
ہندوستان کے لئے تشفی کی بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں 2023 کے لیے ہندوستان کی شرح نمو کا تخمینہ 6.6% تک بڑھا دیا۔
جو کہ 6% کی سابقہ??پیش گوئی سے زیادہ ہے۔ تاہم، اس کی توقع ہے کہ 2024 میں شرح نمو 6.2 فیصد رہ جائے گی۔
رپورٹ میں پالیسی میں تبدیلیوں اور ادارہ جاتی اصلاحات کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور اس کا ذکر ہے کہ ہندوستان سمیت کچھ معیشتوں نے لچک کا مظاہرہ کیا ہے جبکہ دیگر کو چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس سے ایک دن پہلے، عالمی بینک نے مالی سال 24 میں ہندوستان کی معیشت کی شرح نمو 6.3 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا تھا۔ ہندوستان کی مالی سال 23 کی اقتصادی ترقی 7.2 فیصد تھی۔
عالمی معیشت میں کساد بازاری
UNCTAD نے کہا کہ عالمی معیشت انتہائی سست رفتاری سے ترقی کر رہی ہے۔ 2023 میں اس کی متوقع نمو 2.4 فیصد ہے، جو عالمی کساد بازاری کے روایتی معیار پر پورا اترتی ہے۔ مشرقی اور وسطی ایشیا کے علاوہ پوری عالمی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔ تنظیم نے کہا کہ برازیل، چین، بھارت، جاپان، میکسیکو، روس اور امریکہ سمیت کچھ معیشتوں نے 2023 کے لیے لچک دکھائی ہے۔ جبکہ دوسروں کو زیادہ مشکل چیلنجز کا سامنا ہے۔
ہندوستان کی 10 بڑی کمپنیوں کی کل برآمدات
UNCTAD نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی 10 سب سے بڑی کمپنیاں کل برآمدات میں 8% کا حصہ ڈالتی ہیں۔ تاہم، 2021 میں برآمد کنندگان کی کل تعداد بڑھ کر 1,23,000 سے زیادہ ہو گئی۔ رپورٹ کے مطابق، 2022 میں جنوبی جنوبی تجارت جنوبی کی کل تجارت کا تقریباً 54 فیصد تھی۔ ہندوستان کے بارے میں، UNCTAD نے کہا ہے کہ بیرونی شعبے کے ساتھ نجی اور سرکاری شعبوں نے اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ روس کے ساتھ تجارت کی رفتار نے بھی مدد کی ہے۔ تاہم بے روزگاری اور عدم مساوات کے محاذ پر صورتحال اب بھی تشویشناک ہے۔

ماضی کی غلطیوں سے اجتناب
رپورٹ کے اجرا پر ‘یو این سی ٹی اے ڈی’ کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرین سپین کا کہنا ہے کہ مالیاتی استحکام پیدا کرنے، مفید سرمایہ کاری اور بہتر نوکریوں میں اضافے کے لیے مالیات، معاشی نگرانی اور اشیا کی ترسیل کے حوالے سے متوازن پالیسی درکار ہے۔انہوں نے بین الاقوامی تجارتی و مالیاتی نظام میں پائی جانے والی شدید غیرہم آہنگی سے نمٹنے کے لیے ضابطوں کی تشکیل پر زور دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ممالک کو معاشی پالیسی کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں سے بچنا اور اپنی خامیوں پر قابو پانا ہو گا۔’یو این سی ٹی اے ڈی’ کے مطابق وبا کے بعد عالمی معیشت کی بحالی کا عمل درست راہ پر گامزن دکھائی نہیں دیتا اور مربوط پالیسیوں کی عدم موجودگی میں مستقبل کے حوالے سے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ تاہم، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں معاشی سست روی کو قابو میں رکھنے کی پالیسی کی بدولت بڑھتی ہوئی شرح سود کے باوجود مستقبل کے حوالے سے مایوس کن معاشی توقعات نے حقیقت کا روپ اختیار نہیں کیا۔صارفین کی جانب سے بھرپور اخراجات، مالیاتی بچت کے اقدامات سے پرہیز اور سال کے آغاز میں فعال مالیاتی اقدامات کو آسان ترین قرضوں کی اس پالیسی کی کامیابی کا سبب کہا جا سکتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ملک میں سست رو سرمایہ کاری کے حوالے سے خدشات بدستور موجود ہیں جس میں بلند شرح سود کا خاص طور پر اہم کردار ہے۔
ملے جلے رحجانات
رواں سال دنیا کے دیگر حصوں میں تجارت و ترقی کے حوالے سے ملا جلا رحجان سامنے آیا ہے۔ امریکہ سے برعکس یورپ ممکنہ معاشی گراوٹ کی جانب بڑھ رہا ہے جسے کڑی مالیاتی پالیسیاں اختیار کرنا پڑ رہی ہیں اور ترقی کی راہ میں سخت معاشی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ بڑی معیشتیں سست روی کا شکار ہیں اور جرمنی پہلے ہی معاشی تنگی کا سامنا کر رہا ہے۔ ‘یو این سی ٹی اے ڈی’ نے کہا ہے کہ پورے براعظم میں اجرتوں میں عدم اضافہ یا ان میں کمی اور مالیاتی بچت کے اقدامات ترقی کا پہیہ روک رہے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی بڑی معیشتوں سے موازنہ کیا جائے تو چین میں گزشتہ برس کے مقابلے میں معاشی بحالی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں تاہم اسے اندرون ملک صارفین کی طلب اور نجی سرمایہ کاری میں کمی کا سامنا ہے۔ تاہم ادارے کا کہنا ہے کہ چین کے پاس مالیاتی پالیسی تشکیل دینے کے حوالے سے دیگر بڑی معیشتوں کے مقابلے میں زیادہ گنجائش ہے جس کی بدولت ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں معاشی عدم مساوات کا تسلسل اہم خدشات میں سے ایک ہے جو مزید ترقی یافتہ معیشتوں میں کڑے مالیاتی اقدامات سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہوئے ہیں۔ ادارے نے خبردار کیا ہے کہ ممالک کے مابین دولت کا یہ بڑھتا ہوا فرق معاشی بحالی کے نازک عمل اور پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بہت سے ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کا بوجھ بھی تشویش کا باعث ہے۔ بڑھتی ہوئی شرح سود، کمزور ہوتی کرنسی اور برآمدت میں سست روی نے اہم ضروریات کے لیے مالی گنجائش کم کر دی ہے اور قرضوں کی ادائیگی کا بڑھتا ہوا بوجھ ترقی کے بحران میں تبدیل ہو رہا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔