بچے ایک ایسے ماحول کے حق دار ہیں جہاں وہ اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لے سکیں

عندلیب اختر
ؑناقص تعلیمی کارکردگی کا بنیادی عنصر غذائیت ہے اور یہ دوسرے عوامل کی نشوونما میں بھی معاون ہے۔مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں غذائیت کی کمی زیادہ غیر حاضری، جلد اسکول چھوڑنے، اسکول میں کم اندراج، اور کلاس روم کی غیر تسلی بخش کارکردگی کے لیے خطرہ ہے۔ مڈ ڈے میل پروگرام جیسی کوششیں طلباء کی غذائی حالت، اندراج، حاضری اور تکمیل کی شرح کو بہتر بنانے کے لیے کی گئی ہیں۔ تاہم، اب بھی بہت سے اسکول کے بچے ناقص غذائیت اور اچھی تعلیمی کارکردگی سے دو چار ہیں۔ غذائیت سے مراد بچوں میں ایک یا زیادہ ضروری غذائی اجزا کی کمی ہے۔ غذائیت میں کمی کسی بھی شکل میں صحت عامہ کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ عالمی سطح پر، اسکول جانے کی عمر کے 29.8% بچوں میں آیوڈین کی مقدار ناکافی ہے۔ ہندوستان میں 54% اسکولی بچے کم غذائیت کا شکار ہیں۔
عالمی سطح پر اگرچہ ا سکول کے بچوں کی صحت اور غذائیت پر سرمایہ کاری سے ان کے تعلیمی معیار پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں تاہم دنیا بھر میں ایک تہائی ا سکولوں کو اب بھی پینے کے پانی اور بیت الخلا جیسی بنیادی سہولتوں تک رسائی نہیں ہے۔ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں لگ بھگ ۸ کروڑ لڑکیاں اور لڑکے جنگ، موسمیاتی آفات اور بے گھری کے باعث سرے سے اسکول نہیں جاتے جبکہ لاکھوں بچوں کو بے قاعدگی سے ہی تعلیمی مواقع میسر آتے ہیں، دنیا میں لگ بھگ ۹۵ کروڑ بچوں کو ا سکولوں میں پینے کے پانی تک رسائی محدود ہے یا انہیں وہاں سرے سے ہی پانی میسر نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو)، اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور عالمی پروگرام برائے خوراک (ڈبلیو ایف پی) کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ایسے بچوں کی تقریباً نصف تعداد کا تعلق ذیلی۔صحارا افریقہ سے ہے۔ اگرچہ عملی طور پر دنیا کے تمام ممالک سکولوں میں بچوں کو کھانا مہیا کرتے ہیں، تاہم انتہائی برے حالات میں زندگی بسر کرنے والے اندازاً ۷کروڑ بچوں کو ایسے پروگراموں سے مدد نہیں ملتی۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے آزولے کا کہنا ہے کہ ”بچے محفوظ اور صحت مند ا سکولوں میں بہترین انداز میں سیکھتے ہیں۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ا سکولوں میں صحت، غذائیت اور سماجی تحفظ پر سرمایہ کاری کے لیے ممالک کو مدد فراہم کرے ”کیونکہ بچے ایک ایسے ماحول کے حق دار ہیں جہاں وہ اپنی پوری صلاحیتوں سے کام لے سکیں۔”


نوعمروں کو خوراک کی فراہمی
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ا سکولوں میں کھانا مہیا کرنے سے ہی طلبہ کی تعداد اور حاضری بالترتیب نو اور آٹھ فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ایسی جگہوں پر جہاں خون کی کمی اور کیڑوں سے پھیلنے والے بیماریاں عام ہیں، کیڑے مار ادویات اور وٹامن و نمکیات کی فراہمی سے بچوں کے سکولوں میں زیرتعلیم رہنے کی مدت میں مزید ڈھائی سال کا اضافہ ہو جاتا ہے۔علاوہ ازیں، جب سیکھنے کا ماحول تشدد سے پاک ہو تو بچوں کے ا سکول چھوڑنے کا امکان 50 فیصد تک کم ہوتا ہے اور جب کم آمدنی والے ممالک میں خاص طور پر ایام حیض میں لڑکیوں کے لیے ہاتھوں کی صفائی کا انتظام اور پانی، نکاسی آب اور صحت و صفائی کی سہولیات بہتر بنائی جائیں تو طلبہ کی غیرحاضری میں کمی آتی ہے۔
سرمایہ کاری کے فوائد
رپوٹ میں آنکھ کی نگہداشت، ذہنی صحت، بچوں کی بہبود اور سکولوں میں تشدد کی روک تھام کے فروغ جیسے موضوعات پر بھی بات کی گئی ہے۔
ایسے اقدامات کے نتیجے میں ممالک کو اس سرمایہ کاری سے بچوں اور بالغوں کی زندگیوں میں بہتری لانے کے علاوہ بھی نمایاں فوائد حاصل ہوتے ہیں جو گھروں سے لے کر پورے معاشروں تک محیط ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر سکولوں میں بچوں کو خوراک کی فراہمی پر خرچ کیے جانے والے ہر ایک ڈالر کے عوض 9 ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے جبکہ ذہنی صحت پر توجہ دینے والے سکولوں کے پروگرام سے تقریباً 22 ڈالر کا فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
یونیسکو نے ویزی کاچیچی سے بات کی جو ملاوی کے شمالی علاقے میں ایک ثانوی سکول میں زندگی کی صلاحیتوں سے متعلق تعلیم دیتی ہیں جسے جنسیت کی جامع تعلیم (سی ایس ای) بھی کہا جاتا ہے۔اس ا سکول میں طلبہ کی بڑی تعداد قبل از وقت اور غیرارادی حمل، نوعمری کی شادی اور منشیات کی لت کے باعث پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں۔کاچیچی اپنے طلبہ کو صحت اور جنسی امور سے متعلق موزوں معلومات دیتی ہیں اور ایسے وقت میں انہیں ”بلوغت کو آسان بنانے” میں مدد مہیا کرتی ہیں جب نوجوان ایسی بیشتر معلومات آن لائن یا اپنے ساتھیوں سے حاصل کرتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ”میری کلاس میں ایک لڑکی اپنی خطرناک جنسی سرگرمی اور شراب پینے کی عادت کے باعث سکول چھوڑنے کو تھی۔ میری کلاس میں جنسی ذرائع سے منتقل ہونے والی بیماریوں کے بارے میں ایک ویڈیو دیکھنے کے بعد وہ خود سے مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے میرے پاس آئی۔
یونیسکو نے اس رپورٹ میں اچھی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 90 فیصد ممالک ا سکولوں اور غذائی پروگراموں پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں اور 100 سے زیادہ ملکوں نے ا سکولوں میں حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہمات کا اہتمام کیا ہے۔ہر دو میں سے ایک پرائمری سکول کے طلبہ کو کھانا ملتا ہے اور تقریباً ہر ملک نے صحت اور بہبود سے متعلق تعلیم کو نصاب کا حصہ بنا رکھا ہے۔ بدقسمتی سے ہر خطے میں اس حوالے سے ہونے والی سرمایہ کاری میں فرق ہے اور عام طور پر یہ تمام ضروریات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہوتی۔ رپورٹ میں حکومتوں سے عزم کو مزید مضبوط بنانے اور عالمی برادری سے تعاون کے لیے کہا گیا ہے۔دنیا بھر میں اس شعبے میں کی جانے والی سرمایہ کاری صرف دو ارب ڈالر سالانہ ہے جبکہ صرف کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں ہی قریباً 210 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ شراکت داروں کا کہنا ہے کہ سکولوں میں کھانے، حفاظتی ٹیکوں، کیڑے مار ادویات، نفسیاتی مدد اور سیکھنے کے محفوظ اور مشمولہ ماحول کی ضرورت ہے تاکہ بچوں کی صحت اور بہبود کو فروغ مل سکے۔
کروڑوں بچے ا سکول جانے سے قاصر
وہیں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں 78 ملین لڑکیاں اور لڑکے جنگ، موسمیاتی آفات اور بے گھری کے باعث سرے سے اسکول نہیں جاتے جبکہ لاکھوں بچوں کو بے قاعدگی سے ہی تعلیمی مواقع میسر آتے ہیں۔سیکرٹری جنرل نے ایک پیغام میں اقوام متحدہ کے عالمی فنڈ ”تعلیم انتظار نہیں کر سکتی” (ای سی ڈبلیو) کی جانب سے ہنگامی حالات میں تعلیم کے لیے مزید مالی وسائل کی فراہمی کی اپیل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو سیکھنے کے موقع سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے۔ انتونیو گوتیرش کا کہنا تھا کہ آج 222 ملین بچوں کو فرسودہ تعلیم مل رہی ہے۔ ”جنیوا میں ”تعلیم انتظار نہیں کر سکتی” عنوان سے اعلیٰ سطحی مالیاتی کانفرنس سے خطاب میں سیکرٹری جنرل نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ 2017 میں اپنے آغاز کے بعد اس فنڈ کے ذریعے بحران زدہ علاقوں 87 ہزار اساتذہ کو تربیت دی جا چکی ہے اور 70 لاکھ بچوں نے وہ تعلیم پائی ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔
۔