مرکزی تفتیشی بیورو نے دلّی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کو، دلّی ایکسائز پالیسی کے معاملے میں مبینہ بدعنوانیوں کے سلسلے میں گرفتار کر لیا ہے۔ جناب سسودیا کو CBI کے ذریعہ گھنٹوں تفتیش کرنے کے بعد، ایکسائز پالیسی 2021-22 کے نفاذ میں مبینہ بے ضابطگیوں کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اِس پالیسی کو اب واپس لے لیا گیا ہے۔ اُنھیں ایجنسی نے آج سوالات کرنے کیلئے طلب کیا تھا۔ سسودیا، صبح تقریباً گیارہ بجے، وسطی دلّی کے لودھی روڈ میں واقع CBI کے ہیڈکوارٹرس پہنچے۔ دلّی پولیس نے امن و قانون کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے جنوبی ضلع میں دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔
اِس سے قبل ایجنسی کے ذریعہ 17 اکتوبر کو، سسودیا سے پوچھ تاچھ کی گئی تھی۔ دلّی ایکسائز پالیسی معاملے میں تفتیش کا آغاز، گزشتہ سال اُس وقت ہوا تھا جب دلّی کے لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ نے، بے ضابطگی کو اجاگر کرتے ہو اِس معاملے میں CBI کے ذریعہ تحقیقات کی سفارش کی تھی۔ دلّی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا، CBI کے ذریعہ داخل کردہ FIR میں شامل 15 ملزمان میں سے ایک ہیں۔ یہ FIR ایکسائز پالیسی میں قواعد کی مبینہ خلاف ورزی اور ضابطوں کے نفاذ میں کوتاہی کیلئے درج کرائی گئی تھی

ڈپٹی سی ایم کی گرفتاری کے بعد ایک بار پھر شراب گھوٹالہ کی بحث شروع ہوگئی ہے۔ سوال اٹھ رہے ہیں کہ نئی شراب پالیسی کیا تھی جس کی وجہ سے یہ ہنگامہ شروع ہوا؟ شراب گھوٹالہ کیسے ہوا؟ بی جے پی کے کیا الزامات ہیں؟ سی بی آئی کی چارج شیٹ میں کیا ہے؟ الزامات پر آپ کی حکومت کا کیا ردعمل ہے؟ ہمیں بتائیں…
پہلے جانئے دہلی کی نئی شراب پالیسی کیا تھی؟
17 نومبر 2021 کو دہلی حکومت نے ریاست میں شراب کی نئی پالیسی نافذ کی۔ اس کے تحت دارالحکومت میں 32 زون بنائے گئے تھے اور ہر زون میں زیادہ سے زیادہ 27 دکانیں کھولی جانی تھیں۔ اس طرح کل 849 دکانیں کھولی جانی تھیں۔ نئی شراب پالیسی میں دہلی کی تمام شراب کی دکانوں کو پرائیویٹ کر دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے دہلی میں شراب کی 60 فیصد دکانیں سرکاری اور 40 فیصد نجی تھیں۔ نئی پالیسی کے نفاذ کے بعد یہ سو فیصد پرائیویٹ ہو گئی۔ حکومت نے دلیل دی تھی کہ اس سے 3500 کروڑ روپے کا فائدہ ہوگا۔

حکومت نے لائسنس فیس میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا ہے۔ L-1 لائسنس جس کے لیے پہلے ٹھیکیداروں کو 25 لاکھ ادا کرنے تھے، نئی شراب پالیسی کے نفاذ کے بعد ٹھیکیداروں کو 5 کروڑ روپے ادا کرنے تھے۔ اسی طرح دیگر کیٹیگریز میں بھی لائسنس فیس میں نمایاں اضافہ ہوا۔
سب اچھا ہے پھر گھپلے کے الزامات کیوں؟
نئی شراب پالیسی سے عوام اور حکومت دونوں کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ ساتھ ہی شراب کے بڑے کاروباریوں کو فائدہ پہنچانے کی بات کہی جا رہی ہے۔ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا الزام ہے۔ گھوٹالے کا معاملہ تین طرح سے سامنے آرہا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے آئیے کچھ اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں۔

لائسنس فیس میں بے تحاشہ اضافہ کرکے بڑے تاجروں کو فائدہ پہنچانے کا الزام
ٹھیکیداروں کو شراب کی فروخت کے لیے لائسنس لینا ہوگا۔ اس کے لیے حکومت نے لائسنس کی فیس مقرر کر دی ہے۔ حکومت نے کئی زمرے بنائے ہیں۔ اس کے تحت شراب، بیئر، غیر ملکی شراب وغیرہ فروخت کرنے کا لائسنس دیا جاتا ہے۔ اب مثال کے طور پر جس لائسنس کے لیے پہلے ٹھیکیدار کو 25 لاکھ روپے ادا کرنے ہوتے تھے، نئی شراب پالیسی کے نفاذ کے بعد اسے اس کے لیے 5 کروڑ روپے ادا کرنے پڑتے تھے۔

الزام ہے کہ دہلی حکومت نے شراب کے بڑے تاجروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے جان بوجھ کر لائسنس فیس میں اضافہ کیا۔ جس کی وجہ سے چھوٹے ٹھیکیداروں کی دکانیں بند ہوگئیں اور بازار میں صرف بڑے شراب مافیا کو لائسنس ملے۔ اپوزیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ اس کے عوض شراب مافیا نے آپ کے لیڈروں اور افسروں کو بھاری رقم رشوت دی۔

حکومت ایک منافع بخش سودا بتا رہی ہے: حکومت کا استدلال ہے کہ لائسنس فیس میں اضافہ کر کے حکومت نے یک وقتی آمدنی حاصل کی۔ اس سے حکومت کی طرف سے ایکسائز ڈیوٹی اور VAT میں کمی کی تلافی ہوئی۔