عابد انور
میڈیا اگر حق اور صداقت کا پیامبر بن جائے تو غریب سے غریب، کمزور اور بے سہارا طبقہ کو بھی انصاف مل جاتا ہے اور ہندوستان میں ایسا متعدد بار ہوا ہے، بڑے معاملے میں دبنگ، سیاستداں، سیاست دانوں کے لاڈلے اور اثر و روسوخ رکھنے والے امیر گھرانے کے لوگوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی ہے اس ضمن میں جیسیکا لال کا معاملہ سامنے رکھ رسکتے ہیں لیکن یہ اب گزرے زمانے کی بات ہوگئی۔ میڈیا خوف زدہ ہے وہ دوسروں کے خوف کو کیا دور کرے گا یا اس کے لئے لڑے گا۔ میڈیا ایک کھلونہ، ٹیپ ریکارڈ بن گیا ہے جو فیڈ کیا جاتا ہے وہی بولتا ہے، اس میں اس کا کوئی ویژن نہیں ہوتا اور ہندوستانی میڈیا کا مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کوئی نئی بات نہیں ہے،اس کا مائنڈ سیٹ پہلے سے بنا ہوا تھا،خاص طور پر فرقہ وارانہ فسادات کے دوران یکطرفہ رپورٹنگ، مسلمانوں کے خلاف فسادمیں ملوث ہونے کا الزام،دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی بے جاگرفتاری اور پہلی ہی فرصت میں انہیں دہشت گردقراردے دینا اور فیصلہ سنا دینا، ہندو لڑکی کی مسلم نوجوان کی شادی پر لوجہاد اور بیرونی فنڈنگ کا واویلا کرنا اور ہر معاملے میں مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرادینامیڈیا کی عادت رہی ہے لیکن کچھ اخبارات اور نیوز چینل تھے جو کسی حد تک مسلمانوں کے موقف کو بھی پیش کردیتے تھے اورصحافیوں کا ایک طبقہ سچ بات لکھتے ہوئے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی داستان رقم کرتا تھا لیکن 2014کے بعد اس میں شدت سے کمی آئی ہے اور جو صحافی حق پرست تھے اور صحیح بات لکھتے تھے یا تو انہیں مین اسٹریم میڈیا سے نکال دیا گیا ہے یا وہ خود چھوڑ کر نکل آئے۔آج جتنے بڑے بڑے صحافی ہیں اور جن کا نام میڈیا کی دنیا میں ادب و احترام سے لیا جاتا ہے، چند کو چھوڑ کرمین اسٹریم میڈیا میں نہیں ہیں۔دی وائر انہیں صحافیوں کا گروپ ہے جو بڑے بڑے اخبارات اور نیوز چینل سے وابستہ تھے لیکن 2014 میں میڈیا آنے والی زبردست تبدیلی اور سچ پر سخت پہرہ کی وجہ سے انہیں اپنے اپنے اخبارات اور نیوز چینل کو چھوڑنا پڑا۔اس کے بعد متبادل میڈیا دی وائر، الٹ نیوز، کوئنٹ، اسکرول، دی پرنٹ، دی سیٹزن، نیوز کلک،نیوز لانڈری، ستیہ ہندی ڈاٹ کام، ونود دوا شو، پرسونیہ واجپئی، اجیت انجم وغیرہ ہیں جو متبادل میڈیاکے سہارے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔اس وقت اگر کہیں خبر ہے تو صرف متبادل میڈیا میں ہے، مین اسٹریم میڈیا سرکاری بھوپو اور سرکاری ترجمان کے کردارمیں سرگرم ہے۔وہا ں عوامی مسائل اٹھائے نہیں جاتے۔ اوپر سے جو اسکرپٹ آتا ہے میڈیا اسی پرشور شرابہ شروع کردیتاہے۔اس وقت جس طرح سشانت سنگھ راجپوت مین اسٹریم میڈیا میں چھاپا ہوا ہے اسی طرح مارچ کے اخیر اور اپریل میں مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ چلانے کے لئے تبلیغی جماعت کو مین اسٹریم میڈیا نے اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا۔ منظم طور پر میڈیا نے کورونا کے لئے تبلیغ جماعت کو پوری طرح ذمہ دار قرار دے دیا تھا۔جس کی وجہ سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم مزید زور پکر لی تھی۔اگر مین اسٹریم میڈیا کو کورونا کے خلاف جنگ میں ذرا بھی دلچسپی ہوتی تو وہ کسی کو نشانہ نہیں بناتا بلکہ احمد آباد میں نمستے ٹرمپ پروگرام کو نشانہ بناتھا، مدھیہ پردیش حکومت گرانے کے کھیل کے خلاف اپنی آواز بلند کرتااور کورونا کے دور میں اس طرح کی حرکت کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کو کٹہرے میں کھڑا کرتا اور حکومت کی ناکاموں کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن میڈیا نے حکومت کے اشارے پر کورونا کی ناکامی اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں مزدوروں کی بے بسی اور بے کسی پر آواز اٹھانے کی بجائے پورا تبلیغی جماعت کی طرف رخ موڑ دیا۔صرف مین اسٹریم میڈیا نے ہی یہ مہم نہیں چلائی بلکہ سوشل میڈیا پر بھی تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے خلاف شدید مہم چلائی گئی اور ٹوئٹر پر مندرجہ ذیل ٹرینڈ چلایا گیا۔
ہیش ٹیگ جہادی وائرس،ہیش ٹیگ کورونا جہاد،ہیش ٹیگ تبلیغی جماعت، ہیش ٹیگ جہادی کورونا وائرس، ہیش ٹیگ مسجدوں میں سرکاری تالا لگاؤ،کے نام سے خطرناک ٹرینڈ چلائے گئے، تاکہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ مجرم قرار دیا جائے،۔ ہوا بھی یہی، ہر طرف مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھنے لگی، ا نہیں نکالنے کی بات ہونے لگی، ہندو قوم پرست جماعت کے لیڈروں کے مسلمانوں کے خلاف بیانات آنے لگے، سبزی والے، پھل فروش، مزدوروں اور دیگر ریہڑی پٹری لگانے والے پر عتاب نازل ہونا شروع ہوگیا اور حکومت نے اسے روکنے کے لئے کوئی اپیل نہیں کی گئی اورنہ ہی ایسے لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لئے گئے۔بلکہ حکومت تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لئے من گھڑت اعداد و شمار پیش کرنے لگی۔وزارت صحت، داخلہ اور صحت سے متعلق ادارے ہر روز میڈیا بریفنگ میں تبلیغی جماعت کے اتنے اتنے بتانے لگے۔اس سلسلے میں میڈیا کی کارکردگی پر نظر رکھنے والے ادارے میں اپنی رپورٹ پیش کرکے میڈیا کے گھناؤنا چہرے کو بے نقاب کیا ہے۔
لاجیکل انڈین ڈاٹ کام میں شائع دی رپورٹرس وداؤٹ بارڈر نامی مضمون میں ٹونٹنی ٹونٹی ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس نے21 اپریل 2020 کو سالانہ پریس فریڈم انڈیکس ریلیز کی جس میں 180 ممالک میں سے ہندوستان کی رینک 142آئی ہے یعنی ہم سے 38ممالک ہی میڈیا کی آزادی کے معاملے میں کمتر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق انڈین میڈیا ہندونیشنلسٹ حکومت کے تحت کام کر رہا ہے جس میں صحافیوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔یہ رضاکار تنظیم جو صحافیوں پر ہونے والے حملے کے بارے میں معلومات جمع کرتی ہے۔اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستانی صحافت کی رینک اس لئے گرگئی ہے کیوں کہ نیشنلسٹ حکومت اس پر مکمل کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے اوراپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ تبلیغی جماعت میڈیا ہاؤس کا چارہ بن گیا، عالمی وبا کو تبلیغی جماعت سے جوڑ دیا گیا،سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا نے مل کر اس بہانے مسلم طبقہ کو نشانے پر لیا۔ ہیش ٹیگ کورونا جہاد، ہیش ٹیک بائیو جہاد،اسکے ذریعہ مسلم اقلیتی طبقہ کے خلاف مہم چلائی گئی۔مذہبی کشیدگی کے دوران کورونا کے نام پر اسلامی فوبیا کو میڈیا نے فروغ دیا۔اس رپورٹ میں مثال پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 14اپریل کولاک ڈاؤن ٹو کے دوران باندرہ میں جب تارکین وطن مزدور باندرہ اسٹیشن کے باہر گھر جانے کے لئے جمع ہوگئے تھے تو یہاں کے کئی ہندی چینل نے یہ بتانے کی کوشش کی کہ مسجد کے باہر لوگ جمع ہوگئے جب کہ وہ اسٹیشن کے باہر جمع تھے اور اس سے کہیں زیادہ بھیڑ سورت میں جمع ہوئی لیکن سورت کا نام تک نہیں لیا گیاتھا۔
امریکہ نشیں فارن پالیسی ڈاٹ کام، جو 49 سال سے کام کررہا ہے،کے مطابق ہندوستانی میڈیا حکومت سے ضروری سوال نہیں کرتا اور عوام کے سامنے ایسی چیزیں پیش کرتا ہے۔ جس سے حکومت کی بہتر ساکھ قائم ہوتی ہو۔انڈیا اسٹٹکٹل مشنری کے رپورٹ کو کور ہی نہیں کیا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کا مین اسٹریم میڈیا حکومت کا ترجمان بنا ہوا ہے اور صرف حکومت کی باتیں پیش کرتا ہے۔ہندوستانی صحافیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ حکومت سے سوال ہی نہیں کرتے۔حکومت اشتہارات کے ذریعہ سے میڈیا کو کنٹرول کرتاہے اور انگریزی کے تین بڑے اخبارات کواشتہارات دینا بند کردیا تھا۔صحافیوں کی عزت معاشرے میں ختم ہوگئی ہے، اسے سیلز ایجنٹ بنادیاگیاہے جو اشتہارات کے ہی بھاگتا دوڑتاہے۔فارن پالیسی کے مطابق فیک نیو ز کی وجہ سے میڈیا کی اہمیت ختم ہوگئی ہے اورلوگ موبائل فون پر نیوز پڑھتے ہیں جو زیادہ تر فرضی ہوتے ہیں۔ چھ سوملین لوگ موبائل استعمال کرتے ہیں اور چارسو میلین سو واٹسپ استعمال کرتے ہیں اور ڈھائی سو ملین فیس بک استعمال کرتے ہیں جس سے نیوز کا ذریعہ ہی بدل گیا ہے۔
ہندوستانی میڈیا کے بارے میں نیویارک ٹائمس میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق ایک میڈیا ہاؤس کو بغیر کسی اطلاع کے ارٹالیس گھنٹے کے لئے کٹ آف کردیا تھا۔اس لئے اس چینل نے فروری کے شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے فساد پر مبنی رپورٹ دکھائی تھی جس میں دہلی اور آر ایس ایس کے کردار پیش کیا گیا تھا۔اخبار نے لکھا کہ یہ پریس کی آزادی پر حملہ تھا۔ پریس کے بارے میں نیویارک ٹائمس نے مزید لکھا ہے کہ ہندوستانی پریس نے ہندوستانی جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن اب صحافی حملے کی زد میں ہیں۔رپورٹ مزید کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے لاک ڈاؤن نافذ کرنے سے پہلے میڈیا ہیڈ سے ملاقات میں پوزیٹیو رپورٹ جاری کرنے کا دباؤ ڈالا تھا۔اس کے علاوہ پانچ لاکھ سے زائد مزدور جب قومی شاہراہ پر پریشان حال تھے تو حکومت کے وکیل نے سپریم کورٹ سے ہدایت دینے کی گزارش کی تھی کہ وہ صرف سرکاری موقف پیش کرے۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ میڈیا ہی نہیں عدالت بھی کس دباؤ میں کام کررہی ہے۔مارچ اپریل میں جب تبلیغی جماعت خاص طور پر بیرون ملک سے آنے والے جماعت کے ارکان کی خلاف جب مہم چل رہی تھی اور ان کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا تو جمعےۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی سامنے آے اور انہوں نے تبلیغی جماعت کی حمایت کرتے ہوئے ان کے ساتھ کئے جانے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھائی اور سفارت خانوں سے غیر ملکی تبلیغی جماعت کے ارکان کی تفصیل نکلوائی۔تبلیغی جماعت کے پروگرام میں شامل ہونے والے غیر ملکی تعداد تین ہزار کے آس پاس تھی جن میں کچھ اپنے ملک واپس جاچکے تھے لیکن دوہزار کے قریب یہاں رک گئے اور لاک ڈاؤن نافذ ہونے کی وجہ سے ان کان نکلنا محال ہوگیا تھا اور جہاں رکے تھے وہیں رہ گئے۔جمعیۃ علمائے کے جاری کردہ اعدد و شمار کے مطابق جو اس نے سفارت خانہ سے جدوجہد کے بعد حاصل کئے گئے تھے، کل دو ہزار پانچ (2005) غیر ملکی تبلیغی ارکان ہندوستان میں پھنس گئے تھے۔ان میں سب سے بڑی تعداد 755انڈونیشیا کی تھی،اس کے بعد بنگلہ دیش 455تھے۔کل 46 ممالک کے تھے جن میں میانمار سمیت یوروپ، امریکہ، عرب ممالک، جنوبی ایشیا کے ممالک کے تبلیغی ارکان تھے۔حیرانی کی بات یہ ہے کہ روزانہ میڈیا بریفنگ میں کورونا سے متعلق تبلیغی جماعت کے جو اعداد و شمار پیش کئے جاتے تھے وہ صحیح نہیں تھے۔ جمعےۃ علمائے ہند نے مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر اس ضمن میں تبلیغی جماعت کے اعداد و شمار جمع کئے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ملکی اور غیر ملکی تبلیغی جماعت کے چھ ہزار ارکان میں سے صرف 66کی ابتدائی رپورٹ کورونا پوزیٹیو آئی تھی لیکن بعد ان سب کی رپورٹ نیگٹیو آگئی تھی۔ صرف 33غیر ملکی تبلیغی جماعت کے ارکان کورونا نیگٹیو ہوئے تھے۔ ان میں سے صرف دو کی کورونا سے موت ہوئی تھی جب کہ ملک کا میڈیا ان لوگوں کو کورونا بم قرار دیا تھا۔ تبلیغی جماعت کے سلسلے میں اپنائے جانے والے انتظامیہ کے مبینہ متعصبانہ رویہ اور میڈیا کے زہریلا پروپیگنڈہ کی وجہ سے جمعیۃ علماء ہند نے میڈیا کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کررکھی ہے۔مولاناسید ارشد مدنی تبلیغی جماعت کے خلاف انتظامیہ اور میڈیا کے پروپیگنڈہ کے خلاف سب سے پہلے میدان میں آئے ہیں اور فوری طور پر بیان جاری کرکے تبلیغی جماعت اور اس کے ارکان کی حمایت میں عملی طور پر کھڑے ہوئے اور اس ضمن میں انتظامیہ سے بھی بات کی تھی اور پورے ملک بھر میں پھیلے جمعیۃ کے اراکین کو تبلیغی جماعت والوں کی مدد کے لئے ہدایت جاری کی تھی جس کے بعد پورے ملک کے جمعیۃ اراکین نے پھنسے ہوئے تبلیغی جماعتوں کی نہ صرف کھانے پینے، رہن سہن اور قانونی مدد کی جس کی وجہ سے ہریانہ،سہارن پور سمیت متعدد مقامات سے تبلیغی جماعت والے بری ہوئے۔تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے حق میں مولانا ارشد مدنی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس وقت جب کوئی منہ کھولنے کے لئے تیار نہیں تھا مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کے پروپیگنڈہ کے خلاف عدالت عظمی کا دروازہ کھٹکھٹایا اور درجنوں چینلوں اور اخبارات کو عدالت میں گھسیٹ لیا، جس کی وجہ سے میڈیا کا رویہ بدلا اور ان کو اپنے متعدد ٹوئٹ حذف کرنے پڑے اور معذرت کا اظہار بھی کیا۔اس مقدمہ کو ملک کے معروف و مشہوروکیل دشینت دوے لڑ رہے ہیں۔جمعےۃ نے بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے فیصلہ کو اپنی عرضی کے ساتھ نتھی کرنے کا فیصلہ کیا۔
واضح رہے کہ بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے جسٹس ٹی وی نلوڈے اور جسٹس ایم جی سیولیکر نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”ان غیر ملکی مہمانوں کے خلاف ٹی وی میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا میں جم کرپروپیگنڈہ کیا گیا، دہلی کے مرکز میں آئے ہوئے لوگوں کے خلاف ماحول بنانے کی کوشش ہوئی کہ یہ غیر ملکی ہندوستان میں کورونا پھیلانے کے ذمہ دار ہیں اور اگر اس کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے لوگوں کو اذیت دی گئی۔ان لوگوں کی سرگرمی سے کہیں سے پتہ نہیں لگتا کہ یہ لوگ تبدیلی مذہب کے لئے آئے ہیں، اسلام مذہب میں شامل کرانے آئے ہیں، اس کی زبان بھی ہندی یا اردو بھی نہیں ہے، یہ الگ الگ زبانوں عربی، فرینچ وغیرہ بولتے ہیں“۔کورٹ نے اعتراف کیا کہ انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے، کورٹ نے کہا کہ کوئی حکومت وبا، قدرتی آفات کے وقت قربانی کا بکرا تلاش کرتی ہے اور حالات بتارہے ہیں کہ شاید ان غیر ملکیوں کو بھی قربانی کا بکرا بنایاگیا۔ ”ہندوستان میں انفیکشن سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ درخواست گزاروں کے خلاف ایسی کارروائی نہیں کی جانی چاہئے تھی۔”
بمبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کا فیصلہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے، ایک تو یہ تبلیغی جماعت پر کوروناجہاد کا الزام دھل گیا ہے، حکومت کی نیت سامنے آگئی ہے، میڈیا کا قبیح چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔اس سے زیادہ میڈیا کے لئے شرمندگی کی کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔ جس طرح معزز جج صاحبان نے میڈیا پر تبصرہ کیا ہے وہ میڈیا کے لئے آئینہ ہے لیکن ہندوستانی میڈیا گندگی میں اس قدر ڈوب چکا ہے اسے اب اپنا کریہہ چہرہ دیکھنا گوارہ نہیں ہے۔ میڈیا کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ وقت ہر چیز کا حساب رکھتا ہے اور نوٹ بھی کرتا ہے۔ہندوستان میں جب میڈیا کی تاریخ لکھی جائے گی تو ہندوستانی میڈیا کے سیاہ باب کا بھی ذکر کیا جائے گا اور یہ بھی لکھا جائے گا کہ کس طرح میڈیا نے عوامی مسائل سے منہ موڑ کر جھوٹ او رپروپیگنڈے کی مہم میں لگ گیا تھا۔اچھی بات ہے کہ چند لوگ عدالت اور متبادل میڈیا میں موجود ہیں جو حق اور صداقت کی آواز کو بلند کرتے ہیں۔