مرکزی حکومت الی استحکام اور مالی نظم وضبط کی راہ پر:سروے


غیر ٹیکس محصول میں قابل لحاظ ترقی سے گزشتہ سال میں اپریل سے نومبر 2019 کے دوران محصول کی وصولی میں 13 فیصد کا اضافہ

جی ایس ٹی مجموعی ماہانہ کلیکشن مالی سال 20-2019 میں پانچ بار ایک لاکھ کروڑ سے متجاوز

مربوط اصلاحات کے نتیجہ میں ٹیکس پر عمل آوری اور محصول کے کلیکشن میں بہتری

اسی سال میں 2019 میں اپریل-نومبر کے دوران سرمایہ اخراجات میں تین گنا کا اضافہ

اقتصادی جائزے میں مالی خسارے میں ترقی کی تجویز پیش کی گئی ہے تاکہ معیشت میں نمو کو بحال کیا جاسکے

اقتصادی جائزہ 20-2019 میں کہا گیا ہے کہ ہندوستانی معیشت کمزور عالمی نمو کے درمیان مالی استحکام اور مالی ہوشمندی کی راہ پر گامزن ہے۔ نمو کو بحال کرنے اور سرمایہ کاری میں اضافہ کرنے کے لئے اہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات کئے گئے ہیں۔ خزانہ وکارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتارمن نے آج پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 20-2019  پیش کیا۔

اقتصادی جائزہ میں کہا گیا ہے کہ بجٹ 20-2019 کے ساتھ پیش کردہ وسط مدتی مالی پالیسی نے (ایم ٹی ایف پی) مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے 3.3 فیصد کے حساب سے 20-2019 کے لئے مالی خسارے کے ہدف کو محدود کردیا اور توقع کی گئی کہ آئندہ بھی یہ دھیرے دھیرے کم ہوجاتا جائے گا اور 21-2020 میں جی ڈی پی کے 3 فیصد کے ہدف کو حاصل کرلے گا۔ جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایم ٹی ایف پی نے مرکزی حکومت کی ذمہ داریوں کو پروجیکٹ کیا ہے، وہ 20-2019 میں جی ڈی پی کے 48.0 فیصد سے کم ہوجائے گا۔ مرکزی حکومت کے قرض میں گراوٹ کے بار ے میں توقع کی گئی تھی کہ وہ قرض جاری رہے گا، جو باالترتیب 21-2020 میں جی ڈی پی کے 46.2 فیصد  اور 22-2021 میں 44.4 فیصد کو پہنچ جائے گا۔

مرکزی حکومت کے سرمائے:

اقتصادی جائزے میں گزشتہ کئی سالوں میں  جی ڈی پی شرح میں ٹیکس میں اضافہ اور جی ڈی پی کے تناسب کے حساب سے ابتدائی خسارے میں کمی کے ساتھ  مرکزی حکومت کے سرمائے میں بہتری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 20-2019 کے پہلے آٹھ مہینوں کے دوران محصول کی وصولی میں گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں اپریل نومبر 2019 میں 13 فیصد کا اضافہ درج کیاگیا تھا۔

مزید برآں اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ 20-2019 کے دوران (دسمبر 2019) تک مجموعی جی ایس ٹی کی ماہانہ وصولی کل پانچ مرتبہ سے ایک لاکھ کروڑ کے نشان سے تجاوزکرگئی ہے۔ مرکز اور ریاستوں کی مجموعی جی ایس ٹی وصولی اپریل سے نومبر 2019 تک 8.05 لاکھ روپے تھی، جو کہ پچھلے سال کی اسی مدت کے مقابلے 3.7 فیصد کا اضافہ ہے۔

براہ راست ٹیکسوں کے درمیان نجی انکم ٹیکس میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جبکہ کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح میں بڑی کٹوتی کی گئی ہے، تاکہ سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کو راغب کیا جاسکے۔ نومبر 2019 تک مرکز کا خالص ٹیکس محصول 7.51 لاکھ کروڑ رہا ہے، جو کہ بجٹ تخمینہ (بی ای) کا 45.5 فیصد ہے۔ ماقبل بجٹ سروے میں کہا گیا ہے کہ مرکز کا غیر قرض سرمایہ وصولی 0.29 لاکھ کروڑ رہی ہے، جس میں  اس پروسیس میں اہم کاروبار کے ساتھ اضافہ ہوسکتا ہے۔

سرمایہ اخراجات میں تین گنا اضافہ:

جائزے میں مالی ہوشمندی کے حدود میں رہتے ہوئے اخراجات کے معیار کی بہتری کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ جائزے میں کہا گیا ہے کہ سبسڈیز پر بجٹ اخراجات بہتر ہدف کے ذریعہ معتدل رہے ہیں۔ سبسڈیوں خصوصی طور پر فوڈ سبسڈی کو مزید معقول بنانے کی اضافی گنجائش بھی رہی ہے۔

جائزے کے مطابق 20-2019 بجٹ تخمینہ میں سرمایہ اخراجات میں 19-2018 میں سالانہ 10 فیصد تک اضافہ کا اندازہ لگایاگیا ہے، جوکہ 3.48 لاکھ کروڑ روپے تک پہنچے گا۔ اخراجات کے لحاظ سے کل اخراجات میں سرمایہ اخراجات کے ساتھ اپریل –نومبر 20-2019 کے دوران قابل لحاظ رفتار سے اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال اسی مدت کے دوران ہوئے اضافہ سے تین گنا زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

قرض کی شرح میں جی ڈی پی میں بہتری:

اقتصادی جائزے کے مطابق جی ڈی پی شرح کے طور پر مرکزی حکومت کی مجموعی ذمہ داریاں مسلسل کم ہورہی ہیں۔ خصوصی طور پر ایف آر بی ایم ایکٹ ، 2003 کے نفاذ کے بعد۔ مارچ 2019 کے آخر تک مرکزی حکومت کی کُل ذمہ داریاں 84.7 لاکھ کروڑ رہی ہے، جن میں سے 90 فیصد عوامی قرض ہے اور یہ کم کرنسی اور سود کی شرح کے خطرات کے زیر اثر رہی ہے۔

ریاستوں کو مزید فنڈ:

جائزے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاستوں کو چودہویں مالیاتی کمیشن کی سفارشات کے بعد ان کی ضروریات کے مطابق فنڈ کے استعمال کے لئے زیادہ سے زیادہ سے خودمختاری کے ساتھ بہت زیادہ فنڈ ٹرانسفر وصول ہوئے ہیں۔ ریاستوں کو فنڈ کی کل منتقلی جی ڈی پی کے 1.2 فیصد پوائنٹ کے حساب سے 15-2014 اور 19-2018 آر ای کے درمیان اضافہ ہوا ہے۔ بجٹ تخمینہ 20-2019 کے مطابق ریاستوں کے ٹیکس اور غیر ٹیکس محصول میں کم شرح پر اضافہ کی توقع کی جاتی ہے۔ ریاستیں تاہم مالی استحکام کی راہ پر گامزن رہیں اور ایف آر بی ایم ایکٹ کے طے کردہ اہداف کے اندر اپنے مالی خسارے کو قابو میں رکھا۔ تاہم ریاستوں کے ذریعہ قرض کی پائیداری اودے (یو ڈی اے وائی) بونڈس میں مالی رکاوٹوں، کسان قر ض معافی اور پے کمیشن کے نفاذ کی وجہ سے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔

اقتصادی جائزے کا اختتام اِس نظریے سے کیاگیا ہے کہ سست مانگ اور صارفین کے احساسات کو فروغ دینے کے لئے کاؤنٹر مالی پالیسی اختیار کی جانی ہوگی۔جی ایس ٹی کے محصول، سبسڈیز کو معقول بنانے اور مالی خسارے کے ہدف میں نرمی لانے  ، تاکہ سرمایہ کاری کو جی ایس ٹی نفاذ  میں آسانی اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی  جیسے ڈھانچہ جاتی اصلاحا ت کے ساتھ نمو کی بحالی کے لئے کلیدثابت ہوں گے۔