Welcome to The Indian Awaaz   Click to listen highlighted text! Welcome to The Indian Awaaz

ادارۂ ادب اسلامی ہند کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی کانفرنس اختتام پذیر

نئی دہلی/

تعمیری ادب کی نمائندہ تنظیم ’ادارۂ ادب اسلامی ہند‘ کے زیر اہتمام سہ روزہ قومی کانفرنس بہ موضوع ’اکیسویں صدی میں ناول: سمت اور رفتار‘ 8 اکتوبر 2023 بروز اتوار کام یابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ کانفرنس کے آخری دن اکیسویں صدی میں ناول: سمت اور رفتار کے عنوان پر ’پینل مذاکرہ‘، ’اکیسویں صدی میں ناول تہذیبی ڈسکورس کے حوالے سے‘، ’اکیسویں صدی میں ہندی ناول‘ اور ’اختتامی اجلاس‘ کا انعقاد عمل میں آیا۔

کانفرنس کے پینل مذاکرے کی صدارت معروف فکشن نگار سید محمد اشرف نے فرمائی۔ جس میں بہ طور پینلسٹ معروف فکشن نگار اور نقاد پروفیسر کوثر مظہری، معروف فکشن نگار اور صحافی ڈاکٹر سلیم خان، ہندی کے اہم فکشن نقاد پروفیسر نیرج کمار اور معروف فکشن نقاد مقصود دانش شامل ہوئے۔ سید محمد اشرف نے خطبۂ صدارت پیش کرتے ہوئے کہا کہ فن کار فوٹو گرافر نہیں ہوتا بلکہ مصوری کرتا ہے، جو جہاں چاہتا ہے ہلکے رنگ لگاتا ہے اور جہاں چاہتا ہے رنگ ذرا شوخ کر دیتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ قاری کے پاس ہمارا پیغام مکمل اور فرحت کے ساتھ پہنچے۔ انھوں نے اکیسویں صدی کی ناول نگاری پر سوال قائم کرتے ہوئے کہا کہ ابن صفی کے بعد گویا جاسوسی ناول نگاری کی موت ہوگئی۔ آج کے دور میں آخر کیوں جاسوسی ناول نگاری کو سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے ناولوں میں تہذیب کی سموئی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسان سوتے ہوئے بھی اپنی تہذیب سے جدا نہیں ہوتا، لیکن تہذیب کو ناول میں پیوند کی طرح نہیں بلکہ سیال کی طرح استعمال کرنا چاہیے۔ فاضل پینلسٹ نے ناول کے عام فہم اسلوب کے سوال پر اظہار خیال کیا کہ اس پیچیدہ دور میں ناول نگار سے سریع الفہمی کا مطالبہ درست نہیں۔ لیکن ناول نگار استعاروں کی پرت اس قدر بھی دبیز نہ کر دے کہ اسے ڈی کوڈ کرتے ہوئے قاری کے ناخن ادھڑ جائیں۔ ہندی کے پینلسٹ پروفیسر نیرج کمار نے اکیسویں صدی کی ناول نگاری پر صارفیت کی در اندازی کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ مارکٹ اکانومی کا عہد ہے، جو اس کے تقاضے پورے کرے گا وہ قانونی اور جو اس کے خلاف ہو وہ غیر قانونی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لفظوں کے معنی بدل کر نئے معنی ان پر تھوپے جا رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ میرا ماننا ہے کہ زندگی مشکل ہے تو ادب کو بھی تھوڑا جٹِل ہی ہونا چاہیے۔ معروف فکشن نقاد مقصود دانش نے پینل میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی میں صرف اردو میں تقریباً 200 کی تعداد میں ناول لکھے گئے ہیں لیکن 70 فی صد ناول تشہیری اور لائق قرأت نہیں ہیں۔ پینل مذاکرے  میں ڈاکٹر امتیاز احمد علیمی اور ڈاکٹر نوشاد منظر نے کوآرڈی نیٹر کے فرائض انجام دیے۔ 

کانفرنس کا پانچواں تکنیکی اجلاس ’اکیسویں صدی میں ناول: تہذیبی ڈسکورس کے حوالے سے‘ منعقد ہوا۔ سیشن کی صدارت جے این یو کے پروفیسر اور مہجری ادب کے نمائندہ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین نے فرمائی۔ انھوں نے صدارتی خطاب میں کہا کہ اکیسویں صدی تصادمات کی صدی ہے۔ یہ ایک عنکبوتی دنیا ہے جس سے ہمیں بہرحال نکلنے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس میں ڈاکٹر زاہد احسن اور ڈاکٹر زاہد ندیم نے ’اکیسویں صدی کے ناولوں میں دیہی اور شہری طرز زندگی کا تصادم‘ کے عنوان پر اپنے مقالے پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسن نے انجام دیے۔

 کانفرنس کی خاص بات یہ رہی کہ اس میں ’اکیسویں صدی میں ہند ناول: سمت اور رفتار‘ کے عنوان سے ایک علاحدہ سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت کے فرائض پروفیسر ہری موہن شرما نے انجام دیے۔ صدر اجلاس نے صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے انھوں نے ادارہ ادب اسلامی ہند کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ اکیسویں صدی اسمِتاؤں کی صدی ہے، مزید انھوں نے کہا کہ اس صدی کی بدقسمتی یہ ہے کہ ناولوں میں سے تھیم غائب ہو تا جا رہا ہے۔ اس سیشن میں ڈاکٹر مہراج علی نے ’اکیسویں صدی کے اپنیاسوں میں مسلم سماج‘، ڈاکٹر پریم تیواری نے ’کتھانک کی بدلتی دشا اور گتی‘ اور ڈاکٹر پرینکا سونکر نے ’ہندی اپنیاس میں استری سور‘ کے عنوان پر نہایت پرمغر مقالے پیش کیے گئے۔نظامت کے فرائض محترمہ اروندھتی نے انجام دیے۔ کانفرنس کے ہندی سیشن کے کنوینر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہندی کے پروفیسر رحمان مصور تھے۔

کانفرنس کا اختتامی اجلاس ڈاکٹر سلیم خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ جب کہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروفیسر شہپر رسول شریک ہوئے۔ عہد حاضر کے ممتاز شاعر پروفیسر شہپر رسول نے مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کے ناولوں میں جو فکری اور نظریاتی کش مکش بپا ہے، ان تین دنوں میں ملک بھر کے ممتاز فکشن نگاروں اور ناقدین نے بہت بامعنی بحث کی ہے۔ ادارہ ادب اسلامی ہند کے نائب صدر اور معروف فکشن نگار ڈاکٹر سلیم خان نے صدارتی کلمات میں کہا کہ میں نے صرف ادارہ ادب اسلامی ہی نہیں بلکہ پوری ادبی دنیا میں اکیسویں صدی کے ناولوں پر اس قدر فکر انگیز اور پر مغز مقالات اور خیالات کسی بھی ادبی محفل میں نہیں سنے۔ اجلاس میں کانفرنس کی رپورٹ ڈاکٹر خالد مبشر (کنوینر کانفرنس) نے پیش کی۔ ادارہ ادب اسلامی ہند کے جنرل سکریٹری حسنین سائر کے شکریے پر کانفرنس کا اختتام عمل میں آیا۔ سامعین میں سے ڈاکٹر افضل مصباحی، ڈاکٹر نعمان قیصر اور ڈاکٹر منظر امام نے سہ روزہ قومی کانفرنس پر اپنے تاثرات پیش کیے۔ کانفرنس میں بڑی تعداد میں ملک بھر کے ممتاز دانشور، نقاد، ادب نواز، ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔ (ادارۂ ادب اسلامی ہند) پریس ریلیز

Click to listen highlighted text!