
از۔۔۔انظر اللہ۔۔
آسام کابینہ سے مدارس اور سنسکرت مراکز کو سرکاری مدد کے متعلق دفعات کو منسوخ کرنے کے متعلق بل کی منظوری کے بعد آج بی جے پی حکومت نے اسے اسمبلی میں پیش بھی کر دیا اور بی جے پی حکومت کی اس میں دلچسپی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسے حکومت منظور کرا کر ہی دم لیگی۔۔۔۔
اس سے قبل آسام کے وزیر تعلیم ہیمنت بِسوا سرمہ نے کہا تھا کہ آسام میں مدارس اور سنسکرت اسکولوں کو حکومت مالی تعاون نہیں دے گی۔ ایسے میں آسام میں تقریباً 600 مدارس پر تالہ لگ سکتا ہے۔
آسام میں دو طرح کے مدارس چلتے ہیں، ایک جسے سرکار چلاتی ہے یا سرکاری گرانٹ سے چلائے جاتے ہیں جبکہ دوسرے قسم کے مدارس کو نجی تنظیمیں یا ادارے چلاتے ہیں اور اس کا خرچ برداشت کرتے ہیں۔
آسام میں 614 سرکاری مدارس ہیں جبکہ 900 سے زائد نجی مدارس میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ملک میں کافی پسمانہ اس ریاست میں 100 سنسکرت مراکز بھی کام کرتے ہیں جبکہ 500 نجی سنسکرت ٹولس کے سہارے بھی تعلیم کو فروغ دیا جاتا ہے۔
حکومت ہر سال مدرسوں پر 3 سے چار کروڑ روپئے خرچ کرتی ہے جبکہ سنسکرت مراکز پر ایک کروڑ کا خرچ حکومت اٹھاتی ہے۔
آئندہ 6 ماہ میں آسام میں اسمبلی انتخابات ہونے ہے ایسے میں حکومت کو چناؤ دکھائی دے رہا ہے جہاں بی جے پی اپنے ووٹروں کو نشانہ بنا کر پولرائز کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہیمنٹ بسوا سرمہ اس سے قبل جب کانگریس حکومت میں وزیر تعلیم تھے، اس وقت انہوں نے مدرسوں کی ترقی کے لیے کروڑوں روپے خرچ کیے تھے لیکن بی جے پی میں آنے کے بعد وہ پوری طرح بدل گئے ہیں۔ ہیمنٹ بسوا سرمہ ریاست میں کافی لمبے وقفے سے وزیر تعلیم رہے ہیں لیکن بی جے پی میں شمولیت کے ساتھ ہی ان کے نظریات اور خیالات میں بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ان تعلیمی اداروں کو بند کرنا نہیں چاہتی بلکہ اسے سرکاری خرچ پر مذہبی تعلیم سے اعتراض ہے، حکومت کےمطابق ان اداروں کو عام تعلیم کے لئے تبدیل کردیا جائے گا اور ان مدارس میں جدید تعلیم دی جائے گی۔
اس سے حکومت کو 300 کروڑ کی بچت نہیں ہوگی بلکہ اسے جدید تعلیم کے لئے خرچ کیا جائے گا اور اس دوران حکومت کسی کو بھی ملازمت سے نہیں نکالے گی۔
جس ملک میں نالندہ یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں میں پوری دنیا سے لوگ تعلیم حاصل کرنے پہنچتے تھے آج بی جے پی کی ووٹ بینک کی سیاسی مجبوری تعلیم پر ہی قدغن لگانے کے لیے تیار ہے۔ کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں حکومت نے ایسے کوئی کام نہیں کیے ہیں جس کے سہارے وہ عوام سے ووٹ کا مطالبہ کر سکے۔ اس لیے ریاست میں مذہبی بنیاد پر ووٹ کو پولرائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔۔۔۔
