گلزار دہلوی معروف شاعر اور دھلی کی مشترکہ تہذیب کے بہترین نمائندے تھے: پروفیسر شہزاد انجم
صدر شعبہ¿ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی پروفیسر شہزاد انجم نے گلزار دہلوی کی رحلت پر شعبے کی جانب سے منعقدہ گوگل میٹ آن لائن تعزیتی جلسے کے صدارتی کلمات میں گہرے رنج و ملال کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ دہلوی تہذیب کی آخری نشانی تھے۔انھوں نے مرتے دم تک اردو زبان و ادب،کلاسیکی روایات، دہلوی کلچر، گنگا جمنی تہذیب، سیکولر اقدار اور حب الوطنی کی آبیاری کی۔پروفیسر شہپر رسول نے کہا کہ گلزار دہلوی اپنے طرز کے واحد آدمی تھے۔ان کی وضع، زبان و اسلوب، لب ولہجہ، طرزِ زندگی، تشبیہات و استعارات سب انھیں کے ساتھ مخصوص تھا۔انھوں نے اردو کاز کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔وہ خالص اردو کلچر کے سب سے ممتاز علم بردار اور صاحب طرز خطیب تھے۔پروفیسر احمد محفوظ نے انھیں ہند ایرانی طرزِ حیات کا عملی نمائندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی طبیعت میں کلاسیکی جمالیات رچی بسی تھی۔ان کی شاعری سے قطع نظر ان کی شخصیت بھی بے مثال تھی۔ایک پنڈت کی زبان سے بات بات پر قرآن وحدیث کے حوالے سن کر لوگ حیران ہوجاتے تھے۔پروفیسر کوثر مظہری نے گلزار دہلوی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ فرقہ پرستی، مذہبی تعصب اور گروہی منافرت کے سخت مخالف تھے۔ان کی رحلت سے ایک تہذیب اور اسلوبِ زیست کا خاتمہ ہوگیا۔پروفیسر عبدالرشید نے گلزار دہلوی کو دبستانِ دلی کا آخری آدمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس عہد میں ان کے منہ سے نکلے الفاظ اور محاوروں کو سند کا درجہ حاصل تھا۔ڈاکٹر عمران احمد عندلیب نے ان کی زندہ دلی، بذلہ سنجی اور محفلی خوش طبعیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کے انتقال کو ایک عہد کی موت سے تعبیر کیا۔تعزیتی جلسے میں شعبے کی جانب سے قرار داد پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد مبشر نے کہا کہ گلزار دہلوی کی شخصیت نفیس و نستعلیق اور اعلیٰ کلاسیکی تہذیبی اقدار کے سانچے میں ڈھلی تھی۔
اس موقع پر ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر محمد سمیع اور ڈاکٹر محمد آدم نے گلزار دہلوی کے اخلاق، رویے، آداب گفتگو اور ان کی بیش بہا اردو خدمات کو یاد کیا۔آن لائن نشست میں شعبے کے اساتذہ میں پروفیسر ندیم احمد، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ثاقب عمران اور ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی نے بھی شرکت کی۔