ڈیجیٹل تخلیق کار اپنے حقوق اور بین الاقوامی قوانین سے لاعلم

عندلیب اختر
ایک ایسے دور میں جب سوشل میڈیا عالمی معلومات کے تبادلے پر پوری طرح اثرانداز ہو چکا ہے، ایک تازہ رپورٹ نے انکشاف ہوا ہے کہ ڈیجیٹل مواد کے دو تہائی تخلیق کار Influencers) (اپنے لاکھوں پڑھنے اور دیکھنے والوں کو غیر تصدیق شدہ معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ جس سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ کچھ بڑی آن لائن شخصیات غیر تنقیدی طور پر گمراہ کن دعوے پھیلا سکتی ہیں۔اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی و ثقافتی ادارے یونیسکو کے ایک تازہ سروے کے مطابق دنیا بھر کے 62 فیصد ڈیجیٹل تخلیق کار انٹرنیٹ پر معلومات شیئر کرنے سے پہلے ان کی تصدیق نہیں کرتے۔یہ یونیسکو کی جانب سے کیا جانے والا دنیا کا پہلا ایسا سروے ہے جو ڈیجیٹل تخلیق کاروں کے کام کے عمل کو سمجھنے کے لئے کیا گیا ہو۔ اس سروے میں دنیا کے 45 ممالک سے 500 تخلیق کاروں سے بات کی گئی اور اس عمل میں امریکہ کی بولنگ گرین سٹیٹ یونیورسٹی سے محققین کی ٹیم بھی شامل تھی۔ڈیجیٹل تخلیق کار، جنہیں انٹرنیٹ کی اصطلاح میں ’کنٹنٹ کرئیٹر‘ کہا جاتا ہے، موجودہ دور میں دنیا بھر میں معلومات کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ بن چکے ہیں اور ان کی فراہم کردہ معلومات کے لوگوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


اس سروے میں یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ان تخلیق کاروں کو معلومات کی تصدیق کے پیمانے یا معیار کا تعین کرنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔ ان میں سے 42 فیصد لوگ سوشل میڈیا پر پوسٹ کے لائک اور شیئر کی تعداد کو اس کی صداقت کا اہم معیار سمجھتے ہیں جبکہ 21 فیصد لوگ اپنے دوستوں کے شیئر کئے گئے مواد پر بھروسہ کرتے ہوئے اسے اپنے اکاؤنٹس پر ڈال دیتے ہیں۔ اسی طرح 19 فیصد تخلیق کاروں کا یہ کہنا تھا کہ وہ معلومات کے مرکزی مصنف کی شہرت کی بنیاد پر اس کی سچائی کو پرکھتے ہیں۔لیکن اس سروے میں 73 فیصد تخلیق کاروں نے معلومات کی تصدیق کرنے کی مہارت کو سیکھنے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے۔ اس ضمن میں صحافی ڈیجیٹل تخلیق کاروں کے اہم معاون ثابت ہو سکتے ہیں مگر ان دونوں پیشوں میں تاحال کوئی گہرا تعلق قائم نہیں ہو سکا۔ عام میڈیا ابھی بھی ڈیجیٹل تخلیق کاروں کے لئے معلومات کا تیسرا بڑا ذریعہ ہے اور وہ زیادہ تر میڈیا کی معلومات پر اپنے تجربات اور تحقیق کر ترجیح دیتے ہیں۔


حقوق اور ذمہ داریوں کی تربیت
اس سروے میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 59 فیصد ڈیجیٹل تخلیق کار اپنے حقوق اور بین الاقوامی قوانین سے لاعلم ہیں۔ تمام تخلیق کاروں میں سے صرف 56 فیصد ایسے پروگرامز کے بارے میں جانتے ہیں جو ان کی تربیت کے لئے بنے ہیں اور ان میں سے بھی صرف 13.9 فیصد نے ایسے کسی تربیتی پروگرام میں شرکت کی ہے۔ یہ لاعلمی انہیں قانونی خطرات سے دوچار کرتی ہے اور ان کے حقوق کے دفاع میں رکاوٹ بھی بن سکتی ہے۔تقریباً 32 فیصد تخلیق کاروں نے بتایا کہ انہیں نفرت انگیز مواد کا سامنا ہوا لیکن صرف 20 فیصد نے اس کے خلاف شکایت درج کی۔ یونیسکو نے اس خلا کو ختم کرنے کے لیے دنیا کا پہلا عالمی تربیتی کورس شروع کیا ہے جس میں 160 ممالک کے 9,000 افراد حصہ لے رہے ہیں۔ یہ کورس تخلیق کاروں کو معلومات کی تصدیق، مستند مواد کی تشہیر، اور غلط معلومات کی نشاندہی کی تربیت فراہم کرے گا۔یونیسکو کے مطابق یہ کورس ڈیجیٹل دنیا میں تخلیق کاروں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور عالمی سطح پر معلومات کی شفافیت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اگرچہ 68 فیصد ممالک نے سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کی ترقی کے لیے پالیسیاں بنا رکھی ہیں لیکن ان میں نصف ہی لڑکیوں اور خواتین کے لیے مددگار ہیں۔یونیسکو کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں میں کامیابی کی نمایاں مثالوں کو اجاگر کرنا ضروری ہے جس کے لیے سوشل میڈیا سے بھی کام لیا جانا چاہیے۔


لڑکیوں پر منفی اثرات
اس سے قبل ایک دوسری رپورٹ میں یونیسکو نے خبردار کیا تھا کہ اگرچہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے سیکھنے سکھانے کے عمل کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے لیکن اس سے صارفین کی معلومات کے غلط استعمال اور تعلیم سے توجہ ہٹنے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق الگورتھم کے ذریعے چلائے جانے والے ڈیجیٹل پلیٹ فارم صنفی حوالے سے منفی تصورات کو پھیلاتے اور خاص طور پر لڑکیوں کی ترقی کو منفی طور سے متاثر کرتے ہیں۔یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آدرے آزولے نے کہا ہے کہ ایسے پلیٹ فارم کی تیاری میں اخلاقی پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا کو تعلیم اور کیریئر کے حوالے سے لڑکیوں کی خواہشات اور امکانات کو محدود کرنے کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔ ‘لڑکیوں کی شرائط پر ٹیکنالوجی’ کے عنوان سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ الگورتھم کے ذریعے خاص طور پر سوشل میڈیا پر پھیلائے جانے والے تصویری مواد سے لڑکیوں کے لیے غیرصحت مند طرزعمل یا غیرحقیقی جسمانی تصورات کو قبول کرنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ اس سے ان کی عزت نفس اور اپنی جسمانی شبیہہ کے بارے میں سوچ کو نقصان ہوتا ہے۔رپورٹ میں فیس بک کی اپنی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ 20 سال سے کم عمر کی 32 فیصد لڑکیوں نے بتایا کہ جب وہ اپنے جسم کے بارے میں برا محسوس کرتی ہیں تو انسٹاگرام انہیں اس کی مزید بری شبیہہ دکھاتا ہے۔

دوسری جانب ٹک ٹاک پر مختصر اور دلفریب ویڈیوز سے صارفین کا وقت ضائع ہوتا ہے اور ان کی سیکھنے کی عادات متاثر ہوتی ہیں۔ اس طرح متواتر توجہ کے طالب تعلیمی اور غیرنصابی اہداف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو آن لائن غنڈہ گردی کا سامنا لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (او ای سی ڈی) میں شامل ممالک سے متعلق دستیاب اعدادوشمار کے مطابق 12 سے 15 سال عمر تک کی لڑکیوں نے بتایا کہ انہیں کبھی نہ کبھی سائبر غنڈہ گردی کا سامنا ہو چکا ہے۔ یہ اطلاع دینے والے لڑکوں کی تعداد 8 فیصد تھی۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے بنائی جانے والی جعلی تصویروں، ویڈیوز اور جنسی خاکوں کے آن لائن اور کمرہ ہائے جماعت میں پھیلاؤ نے اس مسئلے کو مزید تشویشناک بنا دیا ہے۔اس رپورٹ کی تیاری کے عمل میں بہت سے ممالک کی طالبات نے بتایا کہ انہیں آن لائن تصاویر یا ویڈیوز سے واسطہ پڑتا ہے جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتیں۔اس جائزے کے نتائج سے تعلیم بشمول میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

AMN
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔