نئی دہلی: یہاں راجندربھون آڈیٹوریم میں سنیچر کی شام فلسطین اور غزہ کے مظلومین کے ساتھ یکجہتی کا ایک بڑا مظاہرہ ہوا جو غزہ میں ۱۴؍ماہ سے جاری جنگ کے دوران ہندوستان میں مظلومین کے ساتھ اظہاریکجہتی و ہمدردی کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ اس کانفرنس کا انعقاد مسلم مجلس مشاورت نے کیا تھا اور اس میں ملک کی متحرک حقوق انسانی کی اہم شخصیات شریک ہوئیں۔ پڑوسی ملک نیپال کے سیاسی لیڈر اور سابق نائب وزیراعظم اوپندریادو نے اس کانفرنس کی صدارت کی جبکہ معروف صحافی سہیل انجم نے نظامت کے فرائض انجام دئے۔
تمہیدی کلمات کہتے ہوئے صدرمسلم مجلس مشاورت اور دلی اقلیتی کمیشن کے سابق صدر ڈاکٹرظفرالاسلام خان نے کہا کہ آج ہم یہاں یقینا انسانیت کی بنیاد پر فلسطینی مظلومین کی تایید میں جمع ہوئے ہیں لیکن ہندوستان کا فلسطین کے ساتھ بڑا تاریخی رشتہ بھی ہے جو تیرہویں صدی میں بیت المقدس میں بابا فرید کی چلہ کشی اور وہاں ان کے برسوں قیام سے شروع ہوتا ہے، پھر بابا گرونانک نے پندرہویں صدی میں وہاں چلہ اور قیام کیا۔ اس تعلق کی یاد میں آج بھی بیت المقدس میں ہندوستانی مہمان خانہ (انڈین ہوسپائس) موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس مہمان خانے کے اخراجات پورے کرنے کے لئے بیت المقدس اور غزہ میں ہندوستانی موقوفہ املاک موجود ہیں۔بیسویں صدی کے دوسرے اور تیسرے دہے میں ہندوستانیوں نے فلسطینی کاز کی بھرپور حمایت کی تھی جس کی وجہ سے فلسطینیوں نے مولانامحمدعلی جوہر کو ان کے لندن میں جنوری سنہ ۱۹۳۱ میں انتقال کے بعد بیت المقدس لا کر مسجد اقصی کے کمپاؤنڈ میں دفن کیا جو بہت بڑی عزت کی بات ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی جب بھی فلسطین پر افتاد پڑی ہے تو ہمارے ملک نے مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دیا ہے۔ ہندوستان نے ۱۹۹۲ء تک اسرائیل کو قانونی طور سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ ہندوستان نے اندرا گاندھی کے زمانے میں فلسطینی تنظیم آزادی (PLO) کو تسلیم کرلیا تھا اور اس کو ہندوستان میں آفس کھولنے کی اجازت دی تھی۔سنہ ۱۹۹۲ میں اوسلو معاہدے کے بعد ہندوستان نے فلسطین کو تسلیم کیا اور اس کو ہندوستان میں سفارتخانہ کھولنے کی اجازت دی۔ حکومت اور عوام دونوں کی سطح پر ہم نے فلسطین کی تایید کی ہے۔ پچھلے دس سالوں میں حکومتی سطح پر اس تایید میں کمی آئی ہے لیکن عوامی سطح پر اور خصوصاً مسلمانان ہند کی سطح پر ہم پوری طرح فلسطین اور اس کے مظلومین کے ساتھ اور اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام نے مختصراً فلسطین کی تاریخ پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ کس طرح برطانیہ نے فلسطین میں دنیا بھر کے یہودیوں کو لا کر بسایا، ان کی پرائیویٹ فوج بنوائی اور بالآخر اقوام متحدہ کے ذریعے ان کو فلسطین کا ۵۶ فیصد علاقہ دلوایا۔ یہودیوں نے ۱۹۴۸ء کی خانہ جنگی میں فلسطین کے ۷۸ فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا۔ اور پھر ۱۹۶۷ میں باقیماندہ ۲۲ فیصدپر بھی قبضہ کر لیا۔ اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینیوں نے صرف ۲۲ فیصد علاقے حصہ میں اپنی حکومت بنانے کی بات قبول کر لی لیکن اسرائیل عملاً اس کے لئے بھی تیار نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے فلسطین میں مزاحمت جاری رہی اور اسی وجہ سے ۷؍اکتوبر۲۰۲۳ء کو حماس نے اسرائیل کے خلاف حملہ کیا۔ اس حملے کے پیچھے اسرائیلی مظالم کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ فلسطینی مزاحمت کو بین الاقوامی قانونی حمایت حاصل ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو ایک طرف تو مزاحمت کا پورا حق حاصل ہےتو دوسری طرف قابض طاقت کو کسی طرح کا ظلم کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل نے ظلم کی ساری حدیں پار کر دی ہیں۔ غزہ کو کھنڈر بنا دیا، ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو قتل اور زخمی کیا جس میں ۷۰فیصد بچے اور عورتیں ہیں، ۸۰۰ مسجدیں شہید کر دیں، دسیوں چرچ تباہ کر دئے، تمام اسپتال تباہ کر دئے، سینکڑوں اسکول تباہ کر دئے اور غزہ کی تمام گیارہ یونیورسٹیوں کو زمین بوس کر دیا۔ وہاں کے لوگوں کے لئے کھانا، پانی، بجلی اور دواؤں کا باہر سے آنا بھی بند کر دیا جس کی وجہ سے وہاں ایک بھکمری کی حالت ہے اور مختلف قسم کی بیماریاں پھیل گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کے اکثر ممالک اور قومیں اسرائیل کے خلاف کھڑے ہیں، دسیوں ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات توڑ لئے ہیں یا سفیر واپس بلا لئے ہیں، بہت سے ممالک نے فلسطین کو ایک باقاعدہ ملک کے طور پر تسلیم کر لیا ہے اور درجن بھر سے زیادہ ملکوں نے اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں نسل کشی کا کیس دائر کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بین الاقوامی عدالت کی طرف سے اسرائیل کے وزیراعظم نتنیاہو اور سابق وزیردفاع گالانٹ کے خلاف انٹرنیشنل گرفتاری وارنٹ بھی جاری ہو چکا ہے لیکن امریکا اور متعدد مغربی ممالک کی اندھی تایید کی وجہ سے اسرائیل اب بھی اپنے جنگی جرائم میں مشغول ہے جبکہ دنیا کی اکثریت آج فلسطین اور غزہ کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم بھی ہندوستان میں مظلومین کے ساتھ کھڑے ہیں اور اسرائیل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔
سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر اچین ونائک نے کہا کہ دنیا بھر میں صرف اسرائیل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ موجودہ تاریخ کے طویل ترین غیرقانونی فوجی قبضے میں ملوث ہے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل دعوی کرتا ہے کہ وہ ایک جمہوری ملک ہے مگر اس کی جمہوریت صرف یہودیوں کے لئے ہے۔ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس نے اقوام متحدہ کو آج تک اپنا نقشہ نہیں دیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل نتنیاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیل کا ایک نقشہ دکھایا تھا جس میں مشرق وسطی کا ایک بڑا علاقہ شامل تھا۔ دیوار چین کے بعد اسرائیل نے دنیا کی سب سے بڑی دیوار بنائی ہے۔ یہ ۷۰۰کیلومٹر لمبی دیوار اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے سے الگ کرتی ہے۔ تمام ملکوں کی فوجیں ہوتی ہیں لیکن اسرائیل فوج کا ملک ہے۔ تمام اسرائیلی مرد و عورت فوج میں وقت گذارتے ہیں۔ اسرائیل کی فوج اکیلے تمام عرب ملکوں کی فوج کو شکست دے سکتی ہے لیکن پھر بھی وہ مظلومیت کا ڈھنڈورا پیٹتا ہے۔
پروفیسر ونائک نے کہا کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو اپنے شہریوں کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام یہودیوں کا ملک ہے جبکہ اسی کے اندر رہنے والے عرب شہری حقوق سے محروم ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ تاریخ میں سامراج کے تین چہرے ملتے ہیں۔ ایک امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کا ہے جہاں کی مقامی آبادی کو نیست و نابود کر دیا گیا۔ دوسرا جنوبی افریقہ وغیرہ کا ہے جہاں غیرملکی اقلیت نے اکثریت پر طویل عرصے تک جبرا حکومت کی اور بالآخر اس اس کا زوال ہوا اور آج اکثریت حکومت کر رہی ہے۔ تیسرا ماڈل اسرائیل کا ہے جو چاہتا ہے کہ کوئی حقوق دئے بغیر ملک میں موجود تمام غیریہودیوں پر اس کا تسلط ہمیشہ برقرار رہے۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں پچھلے چودہ مہینوں میں اتنے زیادہ فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں کہ اگر اسی تناسب سے ہندوستان میں لوگ مرتے اور زخمی ہوتے تو ان کی تعداد سات کروڑ ہوتی۔ انھوں نے بتایا کہ بین الاقوامی قانون میں قابض طاقت کے کوئی حقوق نہیں ہیں جبکہ مقبوضہ قوم کو اپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے مزاحمت کی اجازت ہے۔ اب اسرائیل مغربی کنارے میں بھی وہی کچھ کرنا چاہتا ہے جو اس نے غزہ میں کیا ہے۔ اسرائیل غزہ پر قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ غزہ کے ساحلی علاقوں میں موجود پٹرول اور نیچرل گیس کے ذخائر سے فائدہ اٹھاسکے۔ انھوں نے کہا کہ آج ساری دنیا فلسطین اور غزہ کے ساتھ کھڑی ہے جبکہ اسرائیل کے لئے تایید مسلسل کم ہو رہی ہے۔ فلسطینی بہت طاقتور قوم ہیں لیکن ان کو عمدہ قیادت نہیں ملی۔ اوسلو معاہدہ کر کے ’’فتح ‘‘ تنظیم اسرائیل کی ذیلی کانٹریکٹر بن گئی ۔ انھوں نے کہا کہ فلسطین میں یا تو ایک حکومت بنے گی جس میں سارے شہریوں کو برابری کے حقوق ملیں گے یا دو ریاستیں بنیں گی جو دونوں خودمختار ہوں گی۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح ہندوتوا ہندوستان میں ایک مسئلہ ہے، اسی طرح صہیونیت اسرائیل میں ایک مسئلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ غزہ پر اتنا بڑا ظلم ہو گیا لیکن پٹرول والے عرب ملکوں نے تیل بند کرنے کی دھمکی تک نہ دی اور نہ یہ کہا کہ ہم ابرھام معاہدے کو ختم کر دیں گے۔ انھوں نے بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اسرائیل کے جواز اور مشروعیت کو ختم کریں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان ڈاکٹر قاسم رسول الیاس نے کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں حقوق انسانی کی پامالی اسرائیل سے زیادہ کسی نے نہیں کی۔ مغربی ممالک کی تائید اور سازش سے اسرائیل نے آج فلسطینیوں کو دو کھلے ہوئے جیلوں میں بند کر رکھا ہے اور ان دونوں جیلوں درمیان بھی کوئی کنکشن نہیں ہے۔ لوگ اسرائیل کے ساتھ فلسطینیوں کی بھی مذمت کرتے ہیں لیکن یہ کہنے والے ۱۹۴۸ء سے آجتک ہونے والے واقعات کو بھول جاتے ہیں۔ اگر ۷؍اکتوبرنہ ہوا ہوتا تو سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہوتا۔ اوسلو کو بھلایا جا چکا ہے۔ یہ ایک یکطرفہ جنگ ہے۔ ایک فریق دوسرے پر مسلسل بمباری کر رہا ہے۔ اس جنگ کے دوران بھی ہندوستان نے نہ صرف اسرائیل کو نہ صر ف مزدور بلکہ اسلحے بھی بھیجے ہیں ۔ ہمارے وزیراعظم یوکرین میں جنگ بندی کے لئے بہت پریشان ہیں لیکن فلسطین کے بارے میں کچھ نہیں بولتے۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں اسرائیلی ظلم کے خلاف احتجاج ہو رہا ہے لیکن ہندوستان میں احتجاج کی اجازت نہیں ہے۔ یہ آج پہلی کانفرنس ہندوستان میں منعقد ہورہی ہے جہاں ہم کھل کر اس مسئلے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ غزہ اور مغربی کنارے میں سارے ظلم کے باوجود اسرائیل آج تک اپنے لوگوں کو آزاد نہیں کرا پا یا ہے اور حماس نے آج شکست نہیں مانی ہے۔ دنیا میں اتنی بہادر اورکوئی قوم نہیں ہے۔ لوگ مر رہے ہیں، گھر تباہ کئے جا رہے ہیں لیکن فلسطینی قوم شکست نہیں مان رہی ہے۔ ہم ان کو سلام کرتے ہیں۔ صرف غزہ ہی میں نہیں بلکہ ایران میں جا کر اسرائیل نے حماس کے لیڈر کو ہلاک کیا۔ اس دوران عربوں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ اگر آج عرب ممالک اور امریکہ وغیرہ چاہیں تو یہ جنگ بند ہو جائے گی۔ اسرائیل درحقیقت پورے علاقے کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔اسلحے کی دوڑ کی وجہ سے بڑی طاقتوں کے سامنے انسانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہمارے ملک کو، جو اہنسا کی بات کرتا رہا ہے، ایک واضح موقف اختیار کرنا چاہئے۔
اشتراکی لیڈر پروفیسر سندیپ پانڈے نے کہا کہ اگر آج اسرائیل کے بجائے کوئی اور ملک ہوتا تو ساری دنیا اس کے خلاف کھڑی ہو گئی ہوتی۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کی اقوام متحدہ کی ممبرشپ ختم کی جائے۔ میں ایک وفد کے ساتھ۲۰۱۰-۲۰۱۱ میں غزہ گیا تھا۔ ہم غزہ میں اسماعیل ھنیہ سے بھی ملے تھے۔ ہم نے غزہ سے زیادہ بہادر لوگ دنیا میں نہیں دیکھے۔ ۔اس وقت بھی غزہ کے خلاف اسرائیلی محاصرہ جاری تھا لیکن کسی نے شکایت نہیں کی۔ جو نعرے ہم نے فلسطین کی دیواروں پر لکھے دیکھے وہ ہم نے کہیں اور نہیں دیکھے۔ ہم نے دیکھا کہ لیڈروں کے قریبی رشتے دار بھی شہید ہوئے تھےاور ان کے گھروں میں ان شہیدوں کے فوٹو لگے تھے ۔ اسرائیل کا خیال نہیں رہا ہو گا کہ یہ جنگ اتنی لمبی چلے گی۔انھوں نے بتایا کہ سنہ ۱۹۶۰ میں جواہر لال نہرو نے غزہ میں ریفیوجی کیمپوں کا دورہ کیا تھا، اس لئے لوگ ان کو آج بھی یاد رکھتے ہیں۔ حماس کے لیڈر خالد مشعل نے ہم سےکہا کہ ہتھیار اٹھانا ہماری مجبوری ہے۔ ہم کو گاندھی نے سکھایا ہے کہ ہم ظلم کو کیسے برداشت کریں۔ پروفیسر پانڈے نے کہا کہ حماس نے ۲۰۰۶ میں الیکشن جیتا تھا۔ جو سنگٹھن چناؤ جیت کر سرکار بنائے اسے دہشت گرد نہیں کہا جاتا ہے۔ حماس اور حزب اللہ دونوں الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ اسرائیلی اپنے بندھکوں کی بات کرتے ہیں ۔ اگر چند سو اسرائیلی حماس کے قبضے میں ہیں تو سات ہزار فلسطینی بھی اسرائیل کی جیلوں میں ہیں۔
پروفیسر سندیپ پانڈے نے مزید کہا کہ ۱۹۴۷ میں انگلینڈ نے دو غلط کام کئے۔یہاں ہندوستان کی تقسیم کی اور وہاں وہ حالات پیدا کئے جن کی وجہ سے فلسطین کی تقسیم ہوئی۔ ان دو غلطیوں کی سزا ہندوپاک اور فلسطین و اسرائیل کے لوگ آج بھی بھگت رہے ہیں۔ جس طرح پہلے اسرائیل اور جنوبی افریقہ کا بائیکاٹ کیا گیا تھا ویسا اب اسرائیل کے ساتھ ہونا چاہئے۔ اسی سے صہیونی نظام ختم ہو گا۔ انھوں نے پوچھا: جرمنی کی غلطی کا خمیازہ فلسطینی کیوں بھریں ؟
سماجوادی پارٹی کے جنرل سکریٹری اور کسان لیڈر ڈاکٹرسنیلم نے کہا کہ ان کی تنطیم ’’ انڈیا پالسٹائن سولیڈریٹی فارم‘‘ نے پورے ملک بلکہ نیپال تک میں فلسطین کے لئے فنکشن کئے ہیں۔ بھارت سےبڑا پروگرام نیپال میں ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم کے ایک قائد آج وینیزویلا میں فلسطین کی تایید میں منعقد کانفرنس میں شریک ہیں۔ وہ کوئی مسلم ملک نہیں ہے۔ ساؤتھ افریقہ بھی کوئی مسلم ملک نہیں ہے۔ اس لئے یہ سمجھنا غلط ہے کہ فلسطین ایک مسلم مسئلہ ہے۔ یہ ساری انسانت کا مسئلہ ہے ۔ انھوں نے کہا کہ نتنیاہو ہٹلر سے بھی بڑا ظالم شخص ہے۔ جس طرح یہ شخص چن چن کر لوگوں کوقتل کر رہا ہے، اسپتالوں اور اسکولوں پر حملے کر رہا ہے وہ ہٹلر نے نہیں کیا تھا۔ اس کے خلاف آج انٹرنیشنل وارنٹ نکل چکا ہے۔ لاکھوں لوگ دنیا بھر میں اس ظلم کے خلاف نکلے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ حزب اللہ کے ساتھ سمجھوتہ اسرائیل کی بڑی ہار ہے۔ اسرائیل کے پاس لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ آج اقوام متحدہ کے ۱۴۶ ممبرملک فلسطین کی تایید کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بنگلور میں ایک بڑا پروٹسٹ چل رہا ہے اور وہاں لوگ اس فیکٹری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جہاں اسرائیل کے لئے ہتھیار بن رہا ہے۔
معروف مجاہد حقوق انسانی ہرش مندر نے کہا کہ جیسے ویٹ نام کے لئے لوگ کھڑے ہوئے تھے ویسے ہی آج لوگ فلسطین کے لئے کھڑے ہیں۔ حکومتیں اسرائیل کے ساتھ ہوسکتی ہیں لیکن ا ٓج دنیا کے عوام فلسطین کے ساتھ ہیں۔ ہٹلر نے جو یہودیوں کو مارا تھا وہ صرف حکومت کا کام نہیں تھا بلکہ اس جرم میں عام شہری بھی ملوث تھے۔ اس کے بعد ساری دنیا میں کہا گیا کہ یہ اب کبھی نہیں ہوگا( Never Again) لیکن حقیقت ہے کہ وہی کچھ آج اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ فیصلہ صرف کچھ لوگوں کے بارے میں یا یہ کہ نازی جیسا سلوک اب کسی اور انسان کے ساتھ نہیں ہوگا۔ پھر آج کیا ہو گیا ہے؟۔ ہم اسرائیل کے لوگوں کے خلاف نہیں ہیں ، ہم اسرائیل کی حکومت کے خلاف ہیں۔ بین الاقوامی کورٹ میں ایک جج نے کہا : اسرائیل نے پہلے دوسروں کی زمیں پر قبضہ کیا ، پھر وہ عنصریت پسند طاقت بنا اور پھر وہ نسل کش طاقت بن گیا۔ آج دنیا میں ہر جگہ اسرائیلی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے لیکن ہندوستان میں کوئی خاص آواز نہیں اٹھ رہی ہےبلکہ کچھ لوگ اسرائیل کی تایید ہی کر رہے ہیں۔ آج ہم کو پھر کہنا پڑے گا: Never again : یہ پھر کبھی دوبارہ نہیں ہوگا اور یہ فیصلہ سب کے لئے ہوگا۔
نیپالی سیاستدان اور سابق نائب وزیر اعظم اوپندر یادو نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ فلسطین میں جو آج ہو رہا ہے وہ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے بھی نہیں کیا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی کی تھی اور اس وقت ساری دنیا نے اس کی مذمت کی تھی اور اب بھی اس کو یاد کیا جا رہا ہے۔ اس ظلم کے باوجود ہٹلر نہیں جیتا اور اس نے خودکشی کی۔ویٹنام چھوٹا سا ملک ہے، وہ امریکہ کی بےتحاشہ لشکرکشی کے باوجود جیتا۔ ایک پترکار نے نیکسن سے پوچھا : امریکہ اتنا طاقتور ہے لیکن وہ ایک کمزور ویتنام کو کیوں نہیں ہرا سکا؟ نیکسن نے جواب دیا: یہ امریکی فوج اور ویتنام کی فوج کے درمیان جنگ نہیں تھی بلکہ امریکی فوج اور ویت نامی عوام کے درمیان تھی، اس لئے وہ لوگ جیتے۔ اوپندر یادو نے کہا کہ فلسطین، اسرائیل کے سامنے کمزور ہےبلکہ سارے عرب ممالک اسرائیل کے سامنے کمزور ہیں۔ اسرائیل جو کر رہا ہے وہ نسل کشی ہے لیکن پھر بھی فلسطینی اس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ جو تکلیف یہودیوں کو ہٹلر سے ہوئی تھی، آج اس سے کہیں زیادہ تکلیف فلسطینیوں کو ہو رہی ہے۔ نوزائیدہ بچے مارے جا رہے ہیں، زخمیوں کے لئے علاج نہیں، پانی ، کھانا ، دوا اور بجلی بند کر دی گئی ہے۔ دنیا کے بہت سے ملکوں میں لوگ اس نسل کشی کے خلاف کھڑے ہیں۔ ایشیا میں سب سے پہلا اسرائیلی سفارت خانہ نیپال میں کھلا تھا لیکن آج نیپالی اسرائیل کے بہت خلاف ہیں۔ ممکن ہے کہ کوئی حکومت اس نسل کشی کی تایید کر رہی ہو لیکن عوام اس کے خلاف ہیں۔ فلسطین کے لوگ اپنے مستقبل کے لئے لڑ رہے ہیں، ان کو شکست نہیں دی جا سکتی ہے۔ وہ آخری آدمی تک لڑیں گے لیکن شکست نہیں تسلیم کریں گے۔ ان کے حقوق کو ماننا پڑے گا۔ اس کے بعد ہی کوئی ترقی ہو سکتی ہے۔ اس ظلم کو فورا بند کرنا چاہئے۔ فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کرنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کو مزید متحرک ہونا چاہئے اور اس ظلم کو روکنے کے لئے ساری دنیا کو کھڑا ہونا چاہئے۔
کانفرنس کے آخر میں شرکاء نے فلسطین کا علم لہراتے ہوئے عہد کیا کہ فلسطین کی آزادی اور صہیونیت کے خاتمے کے لئے جنگ جاری رکھیں گے۔
PRESS RELEASE