
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز بہار میں آئندہ اسمبلی انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹ کی “خصوصی گہری نظرثانی” – ) کا عمل جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ آدھار کارڈ، راشن کارڈ اور الیکشن کمیشن کا جاری کردہ ووٹر شناختی کارڈ اگر اس عمل کے دوران شناختی ثبوت کے طور پر قبول کیے جائیں تو یہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگا۔
جسٹس سدھنشو دھولیا اور جسٹس جوی مالیا باگچی کی بینچ نے کہا:
“ہماری رائے میں، اگر ان تینوں دستاویزات کو شامل کیا جائے تو یہ انصاف کے مفاد میں ہوگا۔”
یہ مشاہدہ اُس وقت سامنے آیا جب عدالت میں اس بات پر سوالات اٹھائے گئے کہ صرف 2003 کے بعد درج ووٹروں کو دوبارہ تصدیق کے لیے کیوں کہا جا رہا ہے اور کیوں عام حکومتی شناختی دستاویزات جیسے آدھار اور خود الیکشن کمیشن کے ووٹر آئی ڈی کو قبول نہیں کیا جا رہا۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز اور ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا سمیت کئی درخواست گزاروں کی طرف سے دائر عرضیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے الیکشن کمیشن سے تین اہم سوالات کیے:
- آپ یہ “خصوصی گہری نظرثانی” کس قانون، خاص طور پر ریپریزنٹیشن آف پیپل ایکٹ کی کس دفعہ کے تحت کر رہے ہیں؟
- جب قانون میں صرف “خلاصہ نظرثانی” اور “مکمل نظرثانی” کی اصطلاحات موجود ہیں تو پھر “خصوصی نظرثانی” کہاں سے آئی؟
- اگر مقصد شہریت کی تصدیق ہے، تو یہ کام وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، نہ کہ الیکشن کمیشن کے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ اگرچہ ووٹر لسٹ کی نظرثانی کرنا الیکشن کمیشن کا آئینی اختیار ہے، لیکن اس نے سوال اٹھایا کہ یہ عمل صرف بہار تک ہی محدود کیوں رکھا گیا؟ اگر اس کا مقصد صرف شہریت کی تصدیق ہے تو پھر یہ پورے ملک میں بغیر کسی انتخابی وابستگی کے کیا جانا چاہیے تھا۔
درخواست گزاروں نے آدھار کارڈ کو مسترد کیے جانے پر بھی اعتراض کیا۔ الیکشن کمیشن نے استدلال دیا کہ آدھار شہریت کا ثبوت نہیں ہے، جبکہ ووٹر بننے کے لیے بھارتی شہری ہونا لازمی ہے۔ اس پر عدالت نے ریمارک دیا کہ اگر مقصد شہریت کی تصدیق تھا، تو کمیشن کو یہ عمل کافی پہلے شروع کرنا چاہیے تھا، نہ کہ انتخابات سے فوراً قبل۔
عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ شہریت کی توثیق کا معاملہ وزارت داخلہ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، الیکشن کمیشن کے نہیں۔
یاد رہے کہ پیر کے روز عدالت عظمیٰ نے ان عرضیوں کو فوری طور پر سماعت کے لیے فہرست میں شامل کرنے کی منظوری دی تھی۔ کئی عرضیوں میں کہا گیا ہے کہ اگر الیکشن کمیشن کا یہ حکم برقرار رہا، تو بغیر کسی مناسب قانونی عمل کے لاکھوں ووٹرز کو ان کے حق رائے دہی سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
