ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

جھارکھنڈ اور مہاراشٹر کے اسمبلی انتخابات کے نتیجے آچکے ہیں۔ جھارکھنڈ میں انڈیا الائنس ننے جیت درج کی ہے جبکہ مہاراشٹر میں انڈیا الائنس کو شکست فاش دے کر مہایوتی الائنس نے تاریخی کامیابی حاصل کی ہے۔ جیت کی لاجک الگ ہوتی ہے ہار کی لاجک الگ ہوتی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار، پولسٹر اور دیگر ماہرین گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے نظر آتے ہیں۔ ساری لاجک، سارا تجزیہ ایک طرف جو جیتا وہی سکندر۔ مہاراشٹر بھارت کی بڑی ریاستوں میں سے ایک ہے اس لیے اس کی جت کے معنی الگ ہیں۔ بی جے پی اس جیت پر بجا طور پر خوشی مناسکتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شیوسینا نے جب پچھلے الیکشن میں بی جے پی سے رابطہ توڑا اور کانگریس اور شردپوار کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، ا س کے بعد بی جے پی نے شیوسیا کو توڑ اور خرید کر دستور ہند اور عوامی مین ڈیٹ کی دھجی اڑاتے ہوئے شنڈے کی قیادت میں سرکار بنائی جس پر بہت سے قانونی سوال کھڑے کئے گئے۔ ایک لمبے عرصے تک سپریم کورٹ نے اس کیس کی شنوائی نہیں کی اور جب شنوائی کی اور جو فیصلہ صادر فرمایا وہ بھارت کی جوڈیشیل تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام نے اس کرپٹ پریکٹس کا کوئی نوٹس نہیں لیا گویا عوام کواس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ کوئی سرکار کیسے بنی عوام کو زیادہ سے زیادہ اتنا مطلب ہے کہ اس لوٹ میں ان کو کچھ ملتا ہے یا نہیں۔
اب کچھ بنیادی سوال۔
(۱) کتنے پرتی شت بھارتیہ مانتے ہیں کہ دیش میں جمہوریت رہنا چاہیے۔
(۲) کتنے پرتی شت بھارتیہ مانتے ہیں کہ جو سرکار جنتا کے پوپولر ووٹ سے چن کر آتی ہے اس کو اپنا کاریہ کال پورا کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
(۳) کتنے پرتی شت بھارتیہ مانتے ہیں کہ دیش میں قانون کا شاسن ہونا چاہیے۔
(۴) کتنے پرتی شت بھارتیہ مانتے ہیں کہ دیش میں سمویدھان کے مطابق سبھی اداروں کو کام کرنا چاہیے اور اس سے بڑا سوال کیا دیش کے سبھی ادارے الیکشن کمیشن، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور دیگر ادارے سمویدھان کے مطابق کام کررہے ہیں۔
میں یہ بات بلا خوف تردید کہنا چاہتا ہوں کہ بھارت کا جو جن مانس ہے یعنی عام عوام میں وہ اندر تک پوری گہرائی کے ساتھ کرپٹ ہیں۔ لہٰذا بھارت میں کرپشن قومی کردار ہے۔ لہٰذا کوئی پارٹی، اور فرد کرپشن سے خالی نہیں ہے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے کرپٹ طریقے کا استعمال یہ تو ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس لیے جو جتنا بڑا کرپٹ ہے اور سسٹم کو مینوپولیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، سام، دام، ڈنڈ، بھید کی پالیسی بنانے اور نبھانے میں جتنا کامیاب ہے الیکشن میں اس کے جیت کے امکانات زیادہ ہیں۔ کوئی سیدھا سادا آدمی الیکشن میں کھڑا ہوجائے تو اس کی ہار یقینی ہے۔ گاندھی جی نے کبھی الیکشن نہیں لڑا۔ میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ اگر الیکشن لڑتے تو ہار جاتے۔ امبیڈکر کا انجام سب کو معلوم ہے۔
لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ملک میں جمہوریت ہے، قانون کی حکمرانی ہے اور حکومت عوام کی فلاح کے لیے کام کررہی ہے۔ یہ ہماری نادانی ہے۔ دراصل یہ آزادی کی نیلم پری نہیں ہے بلکہ دیو استبداد ہے جس نے جمہوری قبا پہن رکھی ہے۔ پرانے زمانے میں راجہ مہاراجہ ہوا کرتے تھے اور ان کی حکومت چلتی تھی۔ ایک راج کا راجہ دوسرے راج کے راجہ کو ہراکر اس کی سلطنت پر قبضہ کرلیتا تھا۔ ان کے درمیان دوستی دشمنی چلتی رہتی تھی، صلح اور معاہدے بھی ہوتے تھے۔ کبھی ساتھ مل کر اور کبھی الگ الگ لڑتے تھے۔ آج اس طرح کے رجواڑے ختم ہوگئے ہیں، اس کی جگہ ہر سیاسی پارٹیوں نے لے لیا ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کا ہائی کمان ہوتا ہے جو کسی راجہ سے کم نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے کوئی زور سے سانس نہیں لے سکتا، بلکہ کھانس بھی نہیں سکتا۔ لوگ غلاموں اور درباریوں کی طرح اس کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس نے کسی کو دیکھ کر مسکرادیا، کسی سے کوئی بات کرلی، کسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا یا کسی کو اپنے سامنے بیٹھنے کو کہا تو اس کی معراج ہوگئی۔ اس طرح کاروبار ِ سیاست کا رنگ ردبار کے رنگ سے بالکل مختلف نہیں ہے۔ آج کی سیاست کسی آئڈیالوجی کے ارد گرد نہیں بلکہ اس شخص کے گرد گھومتی ہے جس کے ہاتھ میں اقتدار ہے یا جو کسی پارٹی کا ہائی کمان ہے۔ اس ماحول میں جمہوریت کا جنازہ تو کب کا نکل چکا ہے ہاں لوگ اس کا تابوت لیے پھرتے ہیں تاکہ عوام کو بھرم رہے کہ حکومت بنانے اور گرانے میں ان کا بھی کوئی رول ہے۔
اب اس الیکشن کا فال آوٹ ایفکٹ کیا ہوگا:
(۱) مرکز کی حکمراں جماعت اور مضبوط ہوگی۔ اس کی حلیف پارٹیوں کاحوصلہ ٹوٹے گا اور وہ اس سے الگ ہونے سے ڈرے گی۔
(۲) بی جے پی اپنی حلیف پارٹیوں کو بلیک میل کرسکے گی اور ان کو ڈرا کر رکھے گی۔ ان سے ڈر کر اور پوچھ کر حکومت کرنے کے بجائے ان کو ڈرا اور دبا کر حکومت کرے گی اور ایسے تمان معاملات جس میں اس کی حلیف پارٹیاں اس سے الگ رائے رکھتی ہیں ان کو مجبور کرے گی کہ وہ اس کے ایجنڈے پر راضی ہوجائیں اور نوے فیصد امکان ہے کہ بی جے پی بلا روک ٹوک اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں کامیاب ہوگی۔
(۳) ملک کی سیاست جس رخ پر مڑچکی ہے اب یہ واضح ہوچلا ہے کہ دستور میں سیکولر لفظ رہے یا نہ رہے ملک ہندو راشٹر بن گیا ہے اور یہ کل قومی نظریہ کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ لہٰذا بی جے پی اپنی حلیف جماعتوں کے تعاون سے اس کام کو کرے گی۔ صرف اس کو اپنے ساتھی لیڈروں اور پارٹیوں کو دو ضمانت دینی ہے پہلا یہ کہ ان کے خلاف ای ڈی، آئی ٹی، سی بی آئی وغیرہ کا استعمال نہیں کیا جائے گا، دوسرے ان ریاستی سرکاروں کو بھرپور مالی تعاون دیا جائے گا تاکہ ان کی حکومت کی مقبولیت عوام میں برقرار رہے۔ وقف ترمیمی بل اس کا پہلا ٹیسٹ کیس ہوگا۔ مجھے پچھتر فیصد امکان ہے کہ اس ونٹر سیشن میں یا آئندہ بجٹ سیشن میں یہ بل پاس ہوجائے گا، چند ایک ترمیمات کے ساتھ۔
(۴) مسلمان قبل سے ہی مشکل حالات میں ہیں۔ ان کے مشکلات بڑھیں گے گھٹیں گے نہیں۔ آئین اور قانون کی ان دیکھی عام ہوگی۔ حکومت بنام اکثریت کی Hegemonyبڑھے گی اور بہت سے دلخراش نعرے اور باتیں سننے کو ملیں گے۔ مشورہ تو یہی ہے کہ دل برداشتہ اور مایوس نہ ہوں بلکہ صبر و عزیمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں۔ اپنا ایماندارانہ احتساب کریں اور جو کمیاں اور کمزوریاں ہیں ان کو دور کریں۔ میدان چھوڑ کر نہ بھاگیں بلکہ پوری عزیمت کے ساتھ ڈٹے اور جمے رہیں۔ حالات بدلیں گے اور ضرور بدلیں گے۔