ملک کے سماجی تانے بانے سے چھیڑچھاڑ، ملک کے جمہوری ڈھانچہ کے لئے ایک بڑاخطرہ


نئی دہلی 20/دسمبر2023
”ملک کے سماجی تانے بانے سے چھیڑچھاڑ ملک کو تباہ کردے گی، اس طرح کی کوئی بھی کوشش ملک کے جمہوری ڈھانچہ کے لئے ایک سنگین خطرہ ہے، ہندوستان صدیوں سے مختلف مذاہب اورتہذیبوں کا مرکز رہاہے، امن واتحاد، رواداری اس کی روشن روایت رہی ہے مگراب کچھ طاقتیں اقتدارکے زعم میں صدیوں پرانی اس روایت کو ختم کرنے کے درپے ہیں، امن واتحادسے زیادہ انہیں اپنا سیاسی مفاداوراقتدارعزیزہے، یہی وجہ ہے کہ آئے دن نئے نئے مذہبی نوعیت کے ایشوزکو اچھال کر امن واخوت کی زرخیززمین میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں اس سماجی تانے بانے کو اب توڑدینے کی سازش ہورہی ہے جس نے اس ملک میں رہنے والے تمام لوگوں کو ایک ساتھ جوڑکے رکھا ہواہے، یہ ایک ایسی ڈورہے جو خدانخواستہ اگر ٹوٹ گئی تو نہ صرف ہماری صدیوں پرانی تہذیب کے لئے یہ ایک بڑاخسارہ ہوگابلکہ یہ روش ملک کو تباہی اوربربادی کی اس راہ پر ڈال دے گی جہاں سے واپسی آسان نہ ہوگی“۔ یہ گرانقدرالفاظ وہ ہیں جو جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آج یہاں کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگوکے دوران کہے۔جمعیۃعلماء ہند کی تاریخ پرروشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہاکہ اسے ایک صدی قبل ملک کی آزادی کے لئے علماء نے ایک پلیٹ فارم کے طورپرقائم کیا تھا چنانچہ علماء نے پوری قوت کے ساتھ آزادی وطن کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ کرجیلوں کوآبادکرتے رہے اورپھانسی کے پھندے پر لٹکتے رہے، جان وطن عزیز  ہندوستان کے لئے دیتے رہے یہاں تک کہ ملک آزادہوگیااورملک آزادہوتے ہی جمعیۃعلماء ہند نے اپنے آپ کوسیاست سے الگ کرلیا،لیکن چونکہ اس کے اغراض ومقاصدمیں ملک کی سالمیت، اتحاداوربھائی چارہ کے فروغ کو اولیت حاصل ہے، اس لئے آزادی کے بعد مذہب کی بنیادپر ملک کی تقسیم کی اس نے پوری طاقت سے مخالفت کی تھی، انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے بزرگوں کے مرتب کردہ رہنمااصولوں پر آج بھی عمل پیرا ہیں وہ اپنا ہر کام مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر کرتی ہے، حال ہی میں میوات میں جن بے گھروں کو گھروں کی تعمیر کے لئے زمین اورامدادی رقم فراہم کی گئی ہے ان میں تین ہندوخاندان بھی شامل ہیں، یہ تنظیم برسوں سے میرٹ کی بنیادپر ہر سال ضرورت مند بچوں کو اسکالرشپ دے رہی ہے اس میں بڑی تعدادمیں ہندوبچے بھی شامل ہوتے ہیں اس لئے کہ جمعیۃعلماء ہند کا بنیادی مقصدانسانیت کی فلاح اوربہودکے لئے کام کرنا ہے۔ میڈیا کے کچھ نمائندوں سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ صحافت کو جمہوریت کا چوتھاستون کہاگیاہے، اس لئے اب وقت آگیاہے کہ ملک کا پرنٹ والیکٹرانک میڈیاکاایک بڑاحلقہ ایمانداری سے اپنا محاسبہ کرے اوراس بات کا جائزہ لے کہ پچھلے کچھ برسوں سے اس نے اپنے لئے جو لائن اختیارکی ہے آیا وہ صحیح ہے یاغلط اور کیا یہ لائن ملک کے مفادمیں ہے؟، مولانا مدنی نے پارلیمنٹ میں ہوئی حالیہ دراندازی اورہنگامہ آرائی کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا لیکن میڈیانے اسے بہت زیادہ اہمیت نہیں دی۔،بلاشبہ یہ ایک سنگین معاملہ تھا مگرمیڈیانے کوئی سوال نہیں کیا،لیکن اگر ساگر شرماکی جگہ کوئی شکیل احمد ہوتاتویہی میڈیا آسمان سرپر اٹھالیتااورجرم کرنے والوں پر ہی نہیں بلکہ  ایک پوری کمیونٹی پر زمین تنگ کردی جاتی، آئین کی بالادستی کے حوالہ سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست کے نام پر اب جوکچھ ہورہاہے اس سے آئین کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگ چکاہے، سوال یہ ہے کہ جس آئین کی دہائی دی جاتی ہے یہ کوئی نیاآئین ہے یاپھر وہ ہے جسے آزادی کے بعد تیارکیا گیا تھا، اگر یہ آزادی کے بعد لایاگیا آئین ہے توپھر ہمیں یہ تسلیم کرناپڑے گاکہ اب جس طرح ہر مسئلہ کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی جاتی ہے اورتفریقی رویہ اختیارکیا جارہاہے یہ سراسرغلط اورملک کے امن واتحادکے لئے انتہائی تباہ کن ہے، انہوں نے آگے کہاکہ ملک کا آئین اپنے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی دیتاہے، اس میں تمام شہریوں کو یکساں اختیاردیئے گئے ہیں اورکسی بھی شہری یا فرقہ یا طبقہ کے خلاف امتیازی رویہ اختیارکئے جانے سے منع کیا گیا ہے، مگر ہویہ رہاہے کہ ایک مخصوص فرقہ کو احساس کمتری میں مبتلارکھنے کی غرض سے آئین کے فراہم کردہ تمام اختیارات اس سے چھین کر اکثریت کو خوش کرنے کی پالیسی پر کھلے طورپر عمل ہورہاہے، ایک ایشوختم نہیں ہوتاکہ کوئی دوسراایشواٹھاکر ایسا پروپیگنڈہ شروع کروادیاجاتاہے جس سے فرقہ وارانہ صف بندی قائم رہے، آئین ملک کے ہر شہری کو مذہبی آزادی فراہم کرتاہے اس کے باوجود تسلسل کے ساتھ یکساں سول کوڈلانے کا شوشہ چھوڑاجاتاہے، دوسرے جرائم کے لئے آئی پی سی کی جو دفعات وہ تمام شہریوں پر یکساں طورپر نافذکی جاتی ہیں، البتہ خانگی معاملات خاص طورپر شادی بیاہ، طلاق وغیرہ کے ضابطے الگ الگ ہیں اوریہ صدیوں پرانے ہیں، خودہندوں میں مختلف برادریوں میں شادی اورطلاق کے الگ الگ طریقہ اوررسومات رائج ہیں، مگر اس سے ملک کے امن وسلامتی پر کبھی کوئی خطرہ نہیں پیداہوا، یکساں سول کوڈلانے کا مطلب یہ ہے کہ سب کے لئے خانگی قانون ایک جیساہوگا، لیکن  تاثریہ دیاجاتاہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے ہی لایا جارہاہے، انہوں نے آگے کہاکہ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں واضح طورپر یہ بات کہی ہے کہ مندرتوڑکر مسجد بنانے کا کوئی ثبوت نہیں ملا، لیکن اب کچھ فرقہ پرست لوگ اس کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں اوراسے اکثریت کی فتح کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے،گیان واپی مسجد کو لیکر آئے حالیہ فیصلہ پر پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں سروے پر کوئی اعتراض نہیں ہمیں یقین ہے کہ اگر ایمانداری سے سروے ہواتووہاں سے کچھ بھی نہیں نکلے گالیکن اب جس طرح یہ نیاتنازعہ کھڑاکیاگیاوہ 1991میں عبادت گاہوں کے تحفظ پر پارلیمنٹ کے ذریعہ لائے گئے قانون کے منافی ہے جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ بابری مسجد کے علاوہ ایسی کسی بھی عبادت گاہ پر اب کوئی تنازعہ نہیں کھڑاکیا جائے گاجو 1947سے موجودہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جمعیۃعلماء ہند اس معاملہ کو سپریم کورٹ لے جائے گی توانہوں نے جواب دیا کہ قانون نے ہمیں جہاں تک جانے کا راستہ دیاہے ہم وہاں تک جائیں گے، سیکولرپارٹیوں کی اس کو لیکر خاموشی پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جو سیاسی پارٹی یہ قانون لے کر آئی تھی اسے بہرحال اس پر بولنا چاہئے، فلسطین تنازعہ پر بعض صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ تاریخ کو جانناضروری ہے اسرائیل نے وہاں غاصبانہ قبضہ کررکھاہے اورغزہ کے لوگ اپنی زمین کو آزادکرانے کی جنگ لڑرہے ہیں انہیں دہشت گردکہنا غلط ہے۔ملک کے موجودہ حالات کے تناظرمیں کئے گئے سوالات کے جوابات میں  انہوں نے کہاکہ سیکولرزم کامطلب یہ ہے کہ مملکت کا کوئی مذہب نہیں ہوگامگر افسوس کہ اب ملک میں سب کچھ اس کے الٹ ہورہاہے، مولانا مدنی نے دوٹوک لہجہ میں کہا کہ اب ملک کے تمام شہریوں کو نہیں اکثریت کو خوش کرنے کی سیاست ہورہی ہے، ملک کے سیکولرڈھانچہ اورجمہوریت کے لئے یہ تباہ کن ہے،انہوں نے کہا کہ انگریزوں نے ہمیں تھال میں سجاکر آزادی نہیں پیش کی بلکہ اس کے لئے ہمارے اکابرین کو بے پناہ قربانیاں دینی پڑی ہیں، اس قربانی میں بلالحاظ  مذہب وملت سب شامل تھے، ہمارے پاس افرادی قوت اورصلاحیت کی کوئی کمی نہیں ہے ضرورت یہ ہے کہ اس قوت اورصلاحیت کامثبت استعمال کیا جائے، مگر اب نفرت اورتفریق کی یہ جوسیاست شروع ہوئی ہے یہ ملک کو ترقی نہیں تباہی کے راستہ پر لے جانے والی ہے۔