جاوید اختر

جنوی کوریا کے بوسان میں اقوام مت‍حدہ کے اجلاس میں پلاسٹک آلودگی  پر گہرے اختلافات کی وجہ سے ممالک کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہو سکا اور بین الاقوامی معاہدے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔

ہندوستان نے پلاسٹک آلودگی کے چیلنج کی سنگینی کو دوہراتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ملک اکیلے طور پر اس کو حل نہیں کرسکتا۔

ہندوستان نے اجلاس میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ہندوستان ایک ارب 40 کروڑلوگوں کا گھر ہے اورملک پلاسٹک آلودگی کے چیلنج سے نمٹنے میں اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے۔اس میں کہاگیا ہے کہ ہندوستان نے پہلے ہی کئی اقدامات کیے ہیں جن میں بعض اقسام کے پلاسٹک پر پابندی بھی شامل ہے اور پلاسٹک کی مصنوعات اور پلاسٹک کی پیکیجنگ میں ایک پرجوش اور مضبوط ای پی آر نظام قائم کیا۔

ہندوستان نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو پلاسٹک آلودگی کی تعمیل کی ذمہ داریوں کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مالی وسائل فراہم کرنے والا ایک واحد وقف کثیر جہتی فنڈ کی ضرورت ہے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ رکن ریاستوں کے ذریعہ قومی سطح پر چلنے والے طریقے سے پلاسٹک آلودگی پر قابو پانے کے اقدام کو نافذ کرنا ہے، ہندوستان کے بیان میں مطالبہ کیا گیا کہ قومی حالات اور صلاحیتوں کو مدنظر رکھا جائے۔ مزید، تکنیکی اور مالی امداد کی فراہمی، بشمول ترقی پذیر ممالک کو ٹیکنالوجی کی منتقلی، نئے طریقہ کار کے موثر نفاذ کے لیے کلید ہے۔

اجلاس کے اختتام پر اقوام متحدہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اس اجلاس میں مندوبین نے معاہدے کو حتمی اور قابل قبول صورت دینے کے لیے مزید بات چیت کا فیصلہ کیا ہے جو آئندہ سال دوبارہ ہو گی، تاہم فی الوقت اس اجلاس کے مقام کا تعین نہیں کیا گیا۔

پچیس نومبر سے دو دسمبر تک چلنے والے اس اجلاس میں دنیا بھر سے 3,300 لوگوں نے شرکت کی جن میں 170 سے زیادہ ممالک اور 440 مشاہدہ کار اداروں کے نمائندے بھی شامل تھے۔ مندوبین نے اس مسئلے پر بین الحکومتی مذاکراتی کمیٹی (آئی این سی) کے سربراہ اور ایکواڈور کے سفیر لوئس وایا والڈیویسو کی تیار کردہ دستاویز پر اتفاق رائے کیا جس کے مندرجات آئندہ بات چیت کی بنیاد ہوں گے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یونیپ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے اجلاس کے اختتام پر خطاب کرتے ہوئے اس میں ہونے والی پیش رفت کو خوش آئندہ قرار دیا اور کہا کہ پلاسٹک کی آلودگی پر موثر طور سے قابو پانے کی راہ میں بہت سے مسائل باقی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آلودگی کا خاتمہ کرنے کے لیے دنیا کا عزم واضح اور ناقابل تردید ہے۔ بوسان میں ہونے والی بات چیت دنیا کو اس معاہدے سے مزید قریب لے آئی ہے جو دنیا بھر کے انسانوں، ماحول اور مستقبل کو پلاسٹک کی آلودگی سے تحفظ فراہم کرے گا۔

انگر اینڈرسن نے کہا کہ مذاکرات کار معاہدے کے متن سے متعلق بڑی حد تک اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک کے موقف اور انہیں درپیش مشترکہ مسائل پر بھی بہتر سمجھ بوجھ دیکھنے کو ملی ہے۔ تاہم، کئی اہم باتوں پر اختلافات بھی برقرار ہیں جن پر قابو پانے کے لیے کچھ مزید وقت درکار ہو گا۔

صحت کے لیے سنگین خطرہ

پلاسٹک کی آلودگی ایک بڑا عالمی مسئلہ ہے۔ روزانہ کوڑا کرکٹ سے بھرے 2,000 ٹرکوں کے برابر پلاسٹک دنیا کے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں کی نذر ہو جاتا ہے جس سے جنگلی حیات اور انسانی صحت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ خوراک، پانی اور مٹی کے علاوہ انسانی اعضا اور نومولود بچوں کی آنول میں بھی پلاسٹک کے باریک ذرات پائے جا رہے ہیں۔

سن دو ہزار بائیس میں اقوام متحدہ کی ماحولیاتی اسمبلی میں منظور کردہ ایک قرارداد میں پلاسٹک کی آلودگی کو ختم کرنے کا معاہدہ طے کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس ضمن میں پلاسٹک کی تیاری، استعمال اور اس کی تلفی سمیت تمام معاملات کو قانونی دائرے میں لایا جانا ہے۔

پلاسٹک کی آلودگی کے اثرات ہر جگہ نظر آرہے ہیں۔ مائیکرو پلاسٹک ہوا، پانی اور یہاں تک کہ ماں کے دودھ میں بھی پائے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پیداوار اور فضلہ کو نہ روکا گیا تو 2050 تک پلاسٹک کی پیداوار تین گنا ہو جائے گی۔

اب اگلے اجلاس میں ان مسائل پر بات کی جائے گی۔ یہ میٹنگ 2025 کے وسط میں ہو سکتی ہے۔ یہ معاہدہ پیرس معاہدے کے بعد ماحولیاتی تحفظ میں سب سے اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا تمام ممالک اس  وقت متفق ہو سکیں گے؟(اے ایم این)