نوجوان معاشی و سماجی مشکلات کے سبب بچے پیدا کرنے سے گریزاں، رپورٹ

عندلیب اختر
دنیا بھر میں والدین بننے کی خواہش رکھنے والے لاکھوں نوجوان آج کل ایسے سماجی و معاشی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، جو انہیں اس قدرتی حق سے محروم کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی () کی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شرحِ پیدائش میں کمی کا اصل سبب نوجوانوں کی عدم دلچسپی نہیں، بلکہ وہ رکاوٹیں ہیں جو انہیں بچے پیدا کرنے جیسے فیصلے سے باز رکھتی ہیں۔
رپورٹ کا عنوان ہے: “باروری کا حقیقی بحران: بدلتی دنیا میں تولیدی آزادی کی تلاش”، جو دنیا کے 14 ممالک میں کی گئی ایک بین الاقوامی تحقیق پر مبنی ہے، اور یہ ممالک عالمی آبادی کے تقریباً 37 فیصد حصے کی نمائندگی کرتے ہیں۔
معاشی تنگی اور عدم تحفظ سب سے بڑی رکاوٹیں
رپورٹ کے مطابق 39 فیصد افراد نے بتایا کہ محدود مالی وسائل کے باعث وہ اتنے بچے نہیں پیدا کر سکتے جتنے وہ درحقیقت چاہتے ہیں۔ مزید برآں، 21 فیصد نے روزگار کی غیر یقینی صورتحال کو بڑی رکاوٹ قرار دیا، جبکہ 19 فیصد نے موسمیاتی تبدیلی، جنگوں اور عالمی بے یقینی جیسے عوامل کو بچے نہ پیدا کرنے کی وجوہات میں شامل کیا۔
اس کے ساتھ ہی، خواتین اور مردوں کے درمیان گھریلو کاموں اور بچوں کی دیکھ بھال کا غیر مساوی بوجھ بھی سامنے آیا۔ 13 فیصد خواتین اور 8 فیصد مردوں نے تسلیم کیا کہ یہی عدم توازن انہیں محدود خاندانی فیصلوں پر مجبور کرتا ہے۔
ذاتی تجربات: ایک تہائی بالغ افراد کو غیر ارادی حمل کا سامنا
یہ رپورٹ محض معاشی حقائق ہی نہیں بتاتی، بلکہ انسانی تجربات کو بھی اجاگر کرتی ہے۔ ایک تہائی بالغ افراد نے تسلیم کیا کہ وہ زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر غیر ارادی حمل کا شکار ہو چکے ہیں، جبکہ ہر چوتھے شخص کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پسند کے وقت پر بچہ پیدا نہیں کر سکا۔
20 فیصد افراد نے اعتراف کیا کہ ان پر والدین بننے کا دباؤ تھا، حالانکہ وہ اس وقت بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے۔
فوری حل نہیں، حکمتِ عملی کی ضرورت
اقوام متحدہ نے ان حکومتوں کو خبردار کیا ہے جو شرح پیدائش میں کمی کو دیکھ کر بچے پیدا کرنے کے لیے مالی مراعات یا دباؤ کا راستہ اختیار کر رہی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ اقدامات نہ صرف غیر مؤثر ثابت ہوتے ہیں، بلکہ اس سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
اس کے بجائے، رپورٹ زور دیتی ہے کہ افراد کو یہ حق دیا جائے کہ وہ آزادانہ فیصلہ کر سکیں کہ کب اور کتنے بچے پیدا کریں — یا کریں بھی یا نہیں۔
سفارشات: حکومتوں کو کیا کرنا چاہیے؟
UNFPA نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں اختیار کریں جو نوجوانوں اور خاندانوں کے لیے معاون بنیں:
- معیاری اور محفوظ روزگار کے مواقع
- مناسب رہائش کی سہولت
- بامعاوضہ زچگی و پدری رخصت
- تولیدی صحت کی جامع اور باعزت خدمات تک رسائی
- بچوں کی پرورش میں مردوں کا فعال کردار یقینی بنانے کی حوصلہ افزائی
ساتھ ہی ادارے نے تجویز دی ہے کہ افرادی قوت میں کمی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے مہاجرت کو ایک پائیدار حل کے طور پر اپنایا جائے۔
بدلتے سماجی رویے اور صنفی تصورات بھی رکاوٹ
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بعض سماجی روایات، جیسے کہ باپ کا بچوں کی نگہداشت میں کردار محدود رکھنا، یا ماں کو پیدائش کے بعد ملازمت سے علیحدہ کر دینا، نوجوان نسل کو شادی یا والدین بننے سے دور کر رہی ہیں۔
یہ سب عوامل اس بڑے عالمی رجحان کو جنم دے رہے ہیں، جہاں اب والدین بننا محض ایک حیاتیاتی ضرورت نہیں، بلکہ ایک معاشی، سماجی اور نفسیاتی فیصلہ بن چکا ہے — جو ہر کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔
رپورٹ کی جھلکیاں
- دنیا کے 14 ممالک میں سروے، 37 فیصد عالمی آبادی کی نمائندگی
- 21 فیصد نوجوان بے روزگاری سے پریشان، خاندان بڑھانے سے گریزاں
- 20 فیصد افراد پر ‘والدین بننے’ کا دباؤ، بغیر مرضی کے بچے پیدا کیے