AMN / WEB DESK

نیپال میں حالیہ عوامی بدامنی کے بعد اب فرانس بھی شدید احتجاجی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ بدھ، 10 ستمبر کو ملک بھر میں شہریوں نے سڑکیں اور چوراہے بلاک کر دیے، مہنگائی، جمود کا شکار تنخواہوں اور سابق وزیرِاعظم فرانسوا بایرو کی کفایت شعاری پالیسیوں کے خلاف نعرے لگائے۔ بایرو کے استعفے کے فوراً بعد شروع ہونے والی یہ تحریک یورپ میں بڑھتی عوامی بے چینی کی ایک تازہ مثال بن گئی ہے۔

فرانس میں بدھ کے روز ہزاروں شہری سڑکوں، چوراہوں اور عوامی مقامات کو بلاک کرتے ہوئے حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے۔ یہ مظاہرے ’’ایوری تھنگ بلاک‘‘ تحریک کے تحت ہوئے، جس میں عوام نے اپنی بڑھتی مشکلات، جمود کا شکار تنخواہوں اور مہنگائی کے بوجھ کو اجاگر کیا۔

یہ احتجاج اُس وقت شدت اختیار کر گئے جب سابق وزیرِاعظم فرانسوا بایرو نے 8 ستمبر کو استعفیٰ دیا۔ ان پر الزام تھا کہ اُن کا بجٹ کم آمدنی والے طبقات پر سب سے زیادہ بوجھ ڈال رہا ہے اور اُنہیں کڑی کفایت شعاری کی طرف دھکیل رہا ہے۔

عوامی آواز

پیرس کے 20ویں ضلعے کے پلاس گامبیٹا میں کم از کم 200 افراد جمع ہوئے۔ 60 سالہ امینہ ال رہدور نے اے ایف پی کو بتایا: ’’یہ ایک بڑی جیت ہے۔ اگلی حکومت کو غریبوں اور ریٹائرڈ لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ سب کچھ مہنگا ہو رہا ہے، ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے۔‘‘

اسی دوران جنوب مغربی علاقے میں ایک 43 سالہ ٹور گائیڈ نے رائٹرز سے گفتگو میں کہا: ’’میں فرانس کے سیاسی نظام سے بے حد ناراض ہوں جو بڑی کمپنیوں اور ارب پتیوں کا ساتھ دیتا ہے اور عام شہریوں – یعنی اُن لوگوں – کے حقوق چھینتا ہے جو ملک کو اصل میں چلاتے ہیں۔‘‘

بایرو کے استعفے کے بعد

بایرو کے استعفے کے بعد 8 ستمبر کو ملک بھر میں عوامی سطح پر ’’فیئرویل پارٹیاں‘‘ منعقد ہوئیں۔ ابتدا میں یہ جشن کی صورت اختیار کر گیا، لیکن جلد ہی عوامی مطالبات اور غصے میں بدل گیا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ صرف بایرو کا جانا کافی نہیں بلکہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔

بحران کی گہرائی

یہ تحریک کچھ حد تک پیلی جیکٹ (Gilets Jaunes) مظاہروں کی یاد دلاتی ہے۔ اگرچہ ابھی تک حالات پرتشدد نہیں ہوئے لیکن لب و لہجہ سخت ہے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ صبر کی حد ختم ہو چکی ہے۔ اگر نئی حکومت نے جلد اقدامات نہ کیے تو یہ احتجاج مزید شدت اختیار کر سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بایرو کے جانے کے بعد صدر ایمانوئل میکرون پر دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ ایسا وزیرِاعظم منتخب کریں جو عوام کا اعتماد بحال کر سکے اور بڑھتے عدم اطمینان کو کم کر سکے۔

مشکلات اور خدشات

مظاہروں میں شریک لوگوں کی شکایات تقریباً ایک جیسی تھیں – بڑھتا ہوا کرایہ، اشیائے خورد و نوش کی قلت اور مستقبل کے بارے میں خدشات۔ لیون کی ایک خاتون نے کہا: ’’ہر بار بازار جاتے ہوئے یہ طے کرنا پڑتا ہے کہ کرایہ دیں، کھانا خریدیں یا بجلی کا بل ادا کریں۔‘‘

یونینز اس تحریک پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جبکہ سماجی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ یہ عوامی غصہ گہری معاشی عدم مساوات کا نتیجہ ہے، جسے وقتی اقدامات سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔

فرانس اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے – کفایت شعاری اور اصلاحات کے بیچ، مالی پابندیوں اور عوامی مطالبات کے درمیان۔ عوام تھک چکے ہیں اور سیاسی قیادت کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔