مہیما کپور
ہندوستان کے “ڈائمنڈ سٹی” سورت میں مزدور ایک غیرمتوقع اور بظاہر کبھی نہ ختم ہونے والے مالی بحران کا سامنا کر رہے ہیں جس کا آغاز یوکرین پر روس کے حملے سے ہوا تھا۔
جب روس نے فروری 2022 میں یوکرین پر حملہ کیا تو گجرات کے شہرسورت کے رہنے والے، سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ہزاروں میل دور جنگ ان کی کمیونٹی میں خودکشی کے مسئلے کو جنم دے گی۔ سورت ملک میں ہیروں کی صنعت کا مرکز ہے، جہاں چھ لاکھ سے زیادہ لوگ اس کام سے وابستہ ہیں۔
صنعت کے اعداد و شمار کے مطابق، دنیا کے 80 فیصد ہیروں کو کاٹنے اور پالش کرنے کا کام سورت کے مزدور کرتے ہیں۔
سورت کی ہیروں کی صنعت کو پہلے ہی بہت سے مسائل کا سامنا تھا مثلاﹰ افریقہ میں سیلاب، مغرب سے مانگ میں کمی، چین کو برآمدات میں اتھل پتھل، اس دوران فروری 2022 میں یوکرین اور روس میں جنگ شروع ہو گئی۔
اس کے بعد روس کے خلاف مغربی پابندیوں کی ایک بڑی لہر آئی، جس میں روسی ہیرے
بھی شامل تھے، اور سورت اچانک ایک گہرے مالی بحران سے دوچار ہوگیا۔
یوکرین کی جنگ سورت میں مالی بحران کا باعث کیسے بن رہی ہے؟
روس کے حملے نے یورپی یونین اور جی سیون ممالک کو تیسرے ممالک کے ذریعے روسی ہیروں کی درآمد پر پابندی عائد کرنے پر اکسایا، جس سے بھارت کی ہیروں کی صنعت میں استعمال ہونے والے اہم خام مال تک رسائی کافی حد تک محدود ہو گئی۔
مارچ 2022 میں جب یہ پابندی نافذ ہوئی تو اس سے ہندوستان کو ہیروں سے ہونے والی آمدنی تقریباً ایک تہائی کم ہو گئی۔
سورت میں گزشتہ 16 مہینوں میں کم از کم 63 ہیرے پالش کرنے والے مزدوروں نے خودکشی کرلی ہے۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ان لوگوِں نے جو سوسائیڈ نوٹ چھوڑے ہیں ان میں اس انتہائی اقدام کے لیے مالی پریشانی کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ کئی ہزار دیگر اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا انہیں تنخواہوں میں زبردست کٹوتیوں کا سامنا ہے۔
ہندوستان کے خام مال کی 30 فیصد سے زیادہ سپلائی روس کی الروسا کان سے ہوتی ہے۔ دنیش ناودیا، جو کہ تجارت اور صنعت کی وزارت کے تحت تشکیل دی گئی جیم اینڈ جیولری ایکسپورٹ پروموشن کونسل (جی جے ای پی سی) کے علاقائی چیئرمین ہیں، نے بتایا “سابقہ کاروبار اب تک بحال نہیں ہو سکا ہے۔”
سورت کے ہیروں کے تاجروں کی انجمن کے صدر جگدیش کھنٹ بھی ایسی ہی تاریک صورت حال کی بات کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا “روس اور یوکرین جنگ کی پہلی بمباری کے بعد سے ہمارے لیے حالات مسلسل اور مزید خراب ہوئے ہیں۔”
ہیرے پالش کرنے والے مدد کے منتظر
گجرات ڈائمنڈ ورکرز یونین کے سربراہ رمیش زیلریا اپنے وقت کا کافی حصہ ایک سوسائیڈ ہیلپ لائن نمبر پر کالوں کا جواب دینے میں صرف کرتے ہیں جو انہوں نے 15 جولائی کو شروع کیا تھا۔
انہوں نے بتایا، “جب سے ہم نے اس کا نمبر شروع کیا ہے ہمیں مدد کے لیے 1,600 سے زیادہ کالیں موصول ہوئی ہیں۔”
ایسی ہی ایک فون کال انہیں اب بھی جھنجھوڑتی رہتی ہے۔
زیلریا نے کہا، وہ ایک ڈائمنڈ پالش کرنے والا مزدور تھا جو سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ یہ شخص چار ماہ سے بے روزگار تھا، گھر کا کرایہ یا اپنے بچے کی اسکول کی فیس بھی ادا نہیں کر سکتا تھا اور اس پر پانچ لاکھ روپے قرض تھا۔ اس کے قرض دہندہ اسے مسلسل پریشان کررہے تھے۔
زیلریا نے بتایا کہ وہ شخص خودکشی کرنے جارہا تھا لیکن ان کے دفتر کے لوگوں نے اسے بچا لیا۔
زیلریا بتاتے ہیں،”وہ سارا دن ہمارے دفتر میں روتا رہا۔ آخر کار ہمیں اس کے خاندان کے لیے کرائے پر ایک مکان مل گیا، ہم نے پہلے مہینے کا کرایہ جمع کرایا، اس کے بچوں کے اسکول کی فیس ادا کی اور ہیروں کی صنعت سے باہر شوہر اور بیوی کے لیے ملازمتیں تلاش کیں۔”
انہوں نے مزید کیا،” تاہم، ہر کسی کی مالی مدد نہیں کی جا سکتی۔”ہم باقی لوگوں کے لیے نوکریاں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن وہ صرف ڈائمنڈ پالش کرنا جانتے ہیں۔”
تنخواہوں میں کٹوتی
سورت کے ہیرے پالش کرنے والے 45 سالہ منوج کو بھی تین دہائیوں کے کام کے بعد مئی میں ملازمت سے نکال دیا گیا تھا۔
آخر کار اسے ایک کورئیر کمپنی میں پارسل پہنچانے کی نوکری مل گئی۔ اس کی تنخواہ کم ہے اور آجر اسے ایندھن کے بل بھی ادا نہیں کر رہا ہے۔
چھ افراد کے خاندان میں واحد کمانے والے منوج پر، اب دو ماہ کا مکان کا کرایہ بقایہ ہے، وہ اپنے بڑے بچے کی اسکول کی فیس ادا کرنے کے قابل نہیں ہے اور اپنی بیوی کا منگل سوتر (شادی شدہ ہندو خواتین کے لیے مقدس ہار)، بالیاں، اور سونے کی ایک انگوٹھی گروی رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا، “میں یہ نہیں بتا سکتا کہ ہم کس طرح اپنا گزارہ کر رہے ہیں۔”
نہ ہی حکومت اور نہ ہی ڈائمنڈ ورکرز یونین کے پاس اس بارے میں مکمل اعداد وشمار ہیں کہ کتنے لوگوں نے اپنی ملازمتیں کھو دی ہیں، کیونکہ ہیروں کی صنعت میں بھی، بہت سے دوسری صنعتوں کی طرح، بڑے پیمانے پر لوگ غیر رسمی طور پر کام کرتے ہیں۔
یونین کے اندازے کے مطابق پچھلے چھ مہینوں میں کم از کم 50,000 پالش کرنے والے اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں جب کہ پچھلے 18 مہینوں میں یہ تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے۔
وہ خوش قسمت ہیں جن کے پاس ابھی بھی ملازمت ہے لیکن انہیں تنخواہوں میں شدید کٹوتیوں کا سامنا ہے۔
ناودیا کا کہنا تھا،”وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے پاس کچھ کام ہو لیکن تنخواہوں میں 30-40 فیصد کی کٹوتی ہوگئی ہے۔ جو شخص 40,000 روپے کما رہا تھا وہ اب صرف 23,000 ماہانہ کما رہا ہے۔”
حکومت سے اپیل
گجرات ڈائمنڈ ورکرز یونین نے گجرات کی ریاستی حکومت کو متعدد خطوط بھیجے، جس میں اقتصادی امدادی پیکج کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس طرح کا تازہ ترین خط جولائی کے آخر میں بھیجا گیا ہے۔
یونین نے ان کاریگروں کے خاندانوں کے لیے مالی امداد کا بھی مطالبہ کیا جو خودکشی کرچکے ہیں۔
زلیریا نے کہا کہ ہم گزشتہ سال سے انہیں خط لکھ رہے ہیں، لیکن انہوں نے جواب تک نہیں دیا۔
اپریل میں، وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے جی سیون کی سورت میں ایک تقریب میں روسی ہیروں پر پابندی کے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا،” ان کا ارادہ روس کو نقصان پہنچانا ہے۔ لیکن یہ اس طرح سے کام نہیں کرتا۔ پروڈیوسر عام طور پر کوئی راستہ تلاش کر ہی لیتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات روس سے زیادہ، سپلائی چین میں نیچے کے لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔(اے ایم این)”