“It has caused severe social upheaval, with borders closed, movement restricted, schools shut and millions of people experiencing loneliness, isolation, anxiety and depression”-@DrTedros#COVID19

Image

ڈبلیو ایچ او نے آج کہا کہ کرونا وبائی بیماری، جس نے پوری دنیا میں صحت اور معاشی تباہی مچا دی، اب عالمی صحت کی ہنگامی صورتحال نہیں ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ یہ “بڑی امید کے ساتھ ہے کہ میں کوویڈ 19 کے خاتمے کو عالمی صحت کی ایمرجنسی قرار دیتا ہوں”۔
انہوں نے کہا کہ وبائی مرض نے “کم از کم 20 ملین” افراد کو ہلاک کیا تھا – جو سرکاری طور پر ریکارڈ کی گئی سات ملین سے کم اموات سے تقریبا تین گنا زیادہ ہے۔

تاہم ٹیڈروس اذانوم گیبریئسس نے کووِڈ کو طول دینے کے اثرات کے بارے میں بھی خبردار کیا ہے، جو اکثر شدید اور کمزور علامات کی ایک لمبی لائن کو اکساتا ہے جو مہینوں یا سالوں تک چل سکتا ہے۔

“1221 دن پہلے، ڈبلیو ایچ او کو چین کے ووہان میں نامعلوم وجہ سے نمونیا کے کیسوں کے ایک جھرمٹ کا پتہ چلا۔

30 جنوری 2020 کو، بین الاقوامی صحت کے ضوابط کے تحت بلائی گئی ایک ہنگامی کمیٹی کے مشورے پر، میں نے #COVID19 کے عالمی وباء پر بین الاقوامی تشویش کی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کیا – بین الاقوامی قانون کے تحت خطرے کی بلند ترین سطح”-

file photo
https://theindianawaaz.com/covid-19-is-no-longer-a-global-health-emergency/

‘وائرس موجود ہے’

انہوں ںے کہا کہ یہ وائرس موجود رہے گا۔ ”یہ اب بھی لوگوں کو ہلاک کر رہا ہے اور اپنی صورتیں بدل رہا ہے۔ اس کی نئی اقسام سامنے آنے کا خطرہ باقی ہے جو اس بیماری کے مریضوں اور اموات کی تعداد میں نئے اضافے کا سبب بنتی ہیں۔” ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے 30 جنوری 2020 کو پہلی مرتبہ اس بیماری کو بین الاقوامی تشویش کی حامل ہنگامی طبی صورتحال قرار دیا تھا۔

ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ یہ فیصلہ غوروخوض کے بعد لیا گیا ہے۔ گزشتہ برس ڈبلیو ایچ او کے زیرقیادت ہنگامی کمیٹی اس بیماری کے حوالے سے انتباہ کی شدت میں کمی لانے کے درست وقت کا تعین کرنے کے لئے معلومات کا بالاحتیاط جائزہ لیتی رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 12 ماہ سے زیادہ عرصہ سے یہ وباء ”کمزور پڑ رہی ہے” اور اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لئے مختصر ترین وقت میں انتہائی مؤثر ویکسین کی تیاری کی بدولت لوگوں کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوا ہے۔ اموات کی شرح میں کمی آئی ہے اور نظام ہائے صحت پر بوجھ کم ہوا ہے جو وباء کے دوران بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔

ٹیڈروز نے مزید کہا کہ ”اس رحجان کی بدولت بیشتر ممالک کو کووڈ۔19 سے پہلے کے معمول کی جانب واپس آںے میں مدد ملی۔”

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے 30 جنوری 2020 کو پہلی مرتبہ اس بیماری کو بین الاقوامی تشویش کی حامل ہنگامی طبی صورتحال قرار دیا تھا۔

UN Photo/Evan Schneider ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے 30 جنوری 2020 کو پہلی مرتبہ اس بیماری کو بین الاقوامی تشویش کی حامل ہنگامی طبی صورتحال قرار دیا تھا۔

گمراہ کن اور غلط اطلاعات

انہوں ںے کہا کہ وباء کے اثرات نے ”ممالک کے اندر اور ان کے مابین سیاسی اختلافات آشکار کر دیے تھے۔” اس وباء نے لوگوں، حکومتوں اور اداروں کے مابین اعتماد کا خاتمہ کر دیا جس میں گمراہ کن اور غلط اطلاعات کا بھی اہم کردار تھا۔

ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ وائرس کے باعث عالمگیر زندگی کے تمام پہلوؤں کو ہونے والے بے پایاں نقصان بشمول بڑے پیمانے پر معاشی اتھل پتھل سے جی ڈی پی کو کئی ٹریلین ڈالر کا خسارہ ہو رہا ہے، سفر اور تجارت میں خلل آیا ہے، کاروبار بند ہو رہے ہیں اور لاکھوں لوگ غربت کی دلدل میں جا رہے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ جب وہ یہ بات کر رہے ہیں تو اس وقت دنیا بھر میں ہزاروں لوگ انتہائی نگہداشت میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں اور مزید لاکھوں لوگ مستقبل میں کووڈ کے بعد جسم پر مرتب ہونے والے نقصان دہ اثرات کا سامنا کریں گے جسے ”طویل کووڈ” بھی کہا جاتا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کے سربراہ نے کہا کہ ایک سطح پر اس ہنگامی صورتحال کا خاتمہ خوشی کا موقع ہے۔ انہوں نے دنیا بھر کے طبی کارکنوں کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور بے لوث لگن کو خراج تحسین پیش کیا۔

گہرے اثرات

تاہم دوسری سطح پر یہ اس وباء کے حوالے سے غوروفکر کا موقع بھی ہے جو ہماری دنیا پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے یہ اثرات تباہ کن نتائج کے حامل کسی نئے وائرس کے ممکنہ ظہور سے متعلق مستقل یاد دہانی ہونے چاہئیں۔

‘غلطیوں سے سبق سیکھیں’

وباء کے دوران ارتباط، مساوات اور یکجہتی کی کمی سمیت بہت سی غلطیاں سرزد ہوئیں جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے پاس موجود ذرائع اور ٹیکنالوجی وائرس سے نمٹنے کے لئے بہترین طور سے استعمال نہیں کی گئی۔

انہوں ںے کہا کہ ”ہمیں اپنے ساتھ، اپنے بچوں اور ان کے بچوں کے ساتھ وعدہ کرنا چاہیے کہ ہم یہ غلطیاں دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔”

”اس تجربے کی بدولت ہم سب کو بہتری کے لئے تبدیل ہو جانا چاہیے۔ اس سے ہمیں اس تصور کی تکمیل کے لئے مزید پرعزم ہو جانا چاہیے جو 1948 میں دنیا بھر کے ممالک نے ڈبلیو ایچ او کے قیام کے وقت اپنایا تھا جس کے مطابق ‘دنیا کے تمام لوگوں کے لئے صحت کا اعلیٰ ترین ممکن معیار’ یقینی بنایا جائے گا۔