AMN


۱۰؍نومبر ۲۰۲۴:  آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ)نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار اور اترپردیش مدرسہ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کو خیرمقدم کرتے ہوئے انھیں خوش آئند قرار دیا ہے۔ مشاورت کے جنرل سیکریٹری معصوم مرادآبادی نے یہاں جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ان فیصلوں سے عدلیہ پر مسلمانوں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔

ان دونوں ہی فیصلوں میں انصاف کے بنیادی تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار اور اسلامی مدرسوں کے آئینی جواز کو قبول کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جس طرح یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کا قائم کیا ہوا تعلیمی ادارہ ہے، وہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مدرسہ تعلیم دراصل مسلمانوں کو دستور سے حاصل تحفظات کا حصہ ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ دونوں ہی فیصلوں پر عوام وخواص کی نظریں مرکوز تھیں، کیونکہ ایک طرف جہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر تلوار لٹکی ہوئی تھی تو وہیں دوسری طرف ہائی کورٹ کی طرف سے اترپردیش مدرسہ ایکٹ2004 ختم کرنے اور مدرسوں کے طلباء کو اسکولوں میں بھیجنے کے فیصلے سے دینی تعلیم کے نظام پر اندیشوں کے بادل تھے۔

ان دونوں ہی معاملوں میں سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلوں کو رد کرکے انصاف کی بہترین مثال قائم کی ہے اور مسلمانوں کو سربلند کرکے چلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔اس لیے ان دونوں فیصلوں کا مسلمانوں کو وسیع پیمانے پر خیرمقدم کرنا چاہئے۔معصوم مرادآبادی نے کہا کہ موجودہ دور کا سب سے بڑا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے وسائل تعلیم کے فروغ پر خرچ کریں اور ملت کے نونہالوں کی ذہنی اور شعوری تربیت پر سب سے زیادہ توجہ دیں۔