
عندلیب اختر
نئی دہلی – امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت، خدمات اور عصری معنویت پر دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز اور شعبۂ اسلامیات، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے اشتراک سے کیا گیا۔ اس کانفرنس میں ملک کے ممتاز دانشوروں، ماہرینِ تعلیم، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور محققین نے شرکت کی اور مولانا آزاد کی علمی، سیاسی اور سماجی خدمات پر اپنے مقالے پیش کیے۔
اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے معروف مفکر اور ماہر اسلامیات پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ “مولانا آزاد نہ صرف جدید ہندوستان کے معمار تھے بلکہ وہ اس ملک کا مستقبل بھی ہیں۔ ایک مدبر وہ ہوتا ہے جو آنے والے طوفان کو پہلے سے بھانپ کر اس کا مقابلہ کرنے کی تدبیر کرے، اور مولانا آزاد اسی وصف کے حامل تھے۔ انہوں نے وقت سے بہت آگے دیکھ لیا تھا اور ہندوستان کی تقدیر کو نئی جہت عطا کی۔”
شخصیت کے مختلف پہلو – علم، تفسیر اور قومی یکجہتی
صدر اجلاس پروفیسر ظہور محمد خان نے کہا کہ مولانا آزاد ایک کثیرالجہات شخصیت کا نام ہیں۔ ان کی سب سے بڑی علمی خدمت تفسیر قرآن “ترجمان القرآن” ہے، جس نے انہیں علمی دنیا میں ایک منفرد مقام عطا کیا۔
کلکتہ کی عالیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رفیق الاسلام نے اپنے خطاب میں کہا کہ مولانا آزاد قومی یکجہتی کے سب سے بڑے وکیل تھے اور ہندوستان کے تعلیمی نظام کے معمار۔ ان کی فکر میں وحدت میں کثرت اور مشرق و مغرب کی ہم آہنگی کی روشن مثال ملتی ہے، جو آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی ان کے دور میں تھی۔
ڈاکٹر محمد عالم گیر، وائس چانسلر، مولانا مظہر الحق عربی و فارسی یونیورسٹی، پٹنہ نے کہا کہ مولانا آزاد نے اقلیتوں کے حقوق کی ضمانت اور متحدہ قومیت کی وکالت کی تھی، جو آج کے حالات میں مزید اہمیت اختیار کرگئی ہے۔
کانفرنس کی سرگرمیاں اور قراردادیں
کانفرنس کے دوران چھ تکنیکی اجلاس ہوئے جن میں 27 اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی اور 51 علمی مقالات پیش کیے۔ ان سیشنز میں مولانا آزاد کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔
اختتامی قرارداد میں چند اہم تجاویز سامنے آئیں:
- مولانا آزاد کی شخصیت اور خدمات کی کشش آج بھی کم نہیں ہوئی ہے، اس لیے ان پر مزید تحقیقی و علمی کام کی ضرورت ہے۔
- ان کی عصری معنویت کو مختلف زاویوں سے تحقیق و تجزیہ کا موضوع بنایا جائے، خاص طور پر آج کے ہندوستان میں۔
- بعض پہلو جیسے ترجمان القرآن کا تقابلی مطالعہ، مولانا آزاد اور روحانیت، سیاسی و سماجی افکار، معاصر علماء سے تعلقات اور قومی زبان پر ان کا نظریہ – مزید تحقیق کے متقاضی ہیں۔
- مولانا آزاد ایک جامع اور آزاد تاریخِ ہند کی تشکیل چاہتے تھے، اس خواب کی تعبیر آج پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔
- ان کے پیغام کو عوام تک پہنچانے کے لیے مزید کانفرنسیں، سیمینارز اور لیکچرز کا انعقاد کیا جائے، اور تحقیقی ادارے اس علمی تحریک کو آگے بڑھائیں۔
آج کی معنویت اور آنے والا وقت
کانفرنس میں متفقہ طور پر کہا گیا کہ مولانا آزاد کی فکر محض ماضی کی وراثت نہیں بلکہ آج کے ہندوستان کے لیے بھی رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔ ان کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ کس طرح قومی یکجہتی، کثرت میں وحدت اور تعلیمی اصلاحات ایک مستحکم مستقبل کی ضمانت ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز نے اس علمی مہم کا آغاز کر کے نئی راہ ہموار کی ہے اور توقع ظاہر کی گئی کہ دیگر ادارے بھی اس سلسلے میں سرگرم کردار ادا کریں گے تاکہ مولانا آزاد کے افکار و نظریات کو نئی نسل تک منتقل کیا جا سکے۔
