یہ دنیا صرف چند ہاتھوں میں سمٹنے کے لیے نہیں بنی۔ اگر عالمی وسائل کا منصفانہ استعمال ہو، اگر عالمی جنوب کے لوگوں کو فیصلوں میں شامل کیا جائے، تو وہ دن دور نہیں جب ہر فرد کو صحت، تعلیم، اور وقار کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہوگا۔

شوبھا شکلا \ عندلیب اختر


دنیا آج جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں سب سے پیچیدہ اور پریشان کن مسئلہ عدم مساوات ہے۔ امارت اور غربت کے درمیان خلیج اتنی گہری ہو چکی ہے کہ اسے صرف پالیسی اصلاحات یا امدادی منصوبوں سے ختم کرنا ممکن نہیں۔ حالیہ رپورٹوں سے یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ دنیا کے ایک فیصد امیر ترین افراد نے 2015 سے اب تک 33.9 ٹریلین امریکی ڈالر کی نئی دولت حاصل کی—جو سالانہ عالمی غربت کو 22 بار ختم کرنے کے لیے کافی ہے۔یہ حیران کن اعدادوشمار اوکسفام کی رپورٹ میں 4ویں اقوام متحدہ کی فنانسنگ فار ڈیولپمنٹ کانفرنس میں پیش کیے گئے، جو اسپین کے شہر سیویل میں منعقد ہوئی۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ کانفرنس بھی امیر ممالک اور ان کے مفادات کی ترجمانی کرتی نظر آئی، نہ کہ غریب اور ترقی پذیر اقوام کی۔
دنیا بھر میں صحت، صنفی مساوات، اور انسانی حقوق جیسے اہم شعبوں کے لیے دی جانے والی مالی امداد میں حالیہ برسوں میں شدید کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کٹوتی نے سب سے زیادہ اثر ان کمزور اور پسماندہ طبقات پر ڈالا ہے جو پہلے ہی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ لیکن اس بحران کا حل محض اتنا نہیں کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کو ”مزید سرمایہ کاری” یا ”جدید مالیاتی طریقے” تلاش کرنے کا مشورہ دیا جائے۔
اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا اور نظامی ہے، جو صدیوں پر محیط اقتصادی ناانصافی، نوآبادیاتی استحصال، اور موجودہ عالمی مالیاتی ڈھانچے میں طاقتور اقوام کی بالادستی سے جڑا ہوا ہے۔
– آکسفیم کی چشم کشا رپورٹ
حال ہی میں اسپین کے شہر سیویل میں ہونے والی اقوام متحدہ کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس برائے ترقیاتی مالیات (FfD4) کے موقع پر آکسفیم نے اپنی تازہ رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ کے مطابق، سال 2015 سے لے کر اب تک دنیا کے سب سے امیر 1 فیصد افراد نے تقریباً 33.9 ٹریلین امریکی ڈالر کی نئی دولت جمع کی ہے۔یہ دولت اتنی زیادہ ہے کہ اگر اس کا منصفانہ استعمال کیا جائے، تو دنیا بھر سے سالانہ بنیاد پر غربت کو 22 مرتبہ مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں مرتکز ہو رہی ہے، جبکہ دنیا کی بڑی اکثریت بدحالی، بیماری اور ناانصافی کے جال میں پھنسی ہوئی ہے۔
انصاف کی کمی
عالمی سطح پر صحت سے متعلق کئی مسائل جیسے ایچ آئی وی، تپ دق (ٹی بی)، کینسر اور دیگر مہلک یا غیر متعدی بیماریوں کا حل موجود ہے۔ دوا بھی ہے، ٹیکنالوجی بھی، اور ماہرین بھی۔ مگر ترقی پذیر ممالک ان سہولیات سے محروم کیوں ہیں؟ اس کی وجہ وسائل کی کمی نہیں بلکہ عالمی سطح پر پائی جانے والی گہری ناانصافی اور سیاسی مرضی کی عدم موجودگی ہے۔علاج اور بچاؤ کے لیے جو مالی وسائل موجود ہیں، وہ بھی اکثر ایسی اسکیموں میں استعمال کیے جاتے ہیں جو حقیقی ضرورت مند طبقے تک نہیں پہنچتیں، یا ان کی ترجیحات کے برخلاف ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نہ صرف مکمل فنڈنگ کی ضرورت ہے بلکہ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ ان وسائل کو کس طرح اور کس کے لیے استعمال کیا جائے — یعنی انصاف اور مساوات کو بنیاد بنا کر۔
عالمی شمال (Global North) نے طویل عرصے تک عالمی جنوب (Global South) کے قدرتی اور انسانی وسائل کا بے دریغ استعمال کیا ہے۔ آج بھی ترقی پذیر ممالک عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں اور شرائط کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ ممالک اپنے محدود وسائل سے قرض ادا کرنے میں مصروف ہیں، جب کہ وہی وسائل عوامی صحت، تعلیم، اور صنفی مساوات پر خرچ ہونے چاہئیں۔
ترقی یافتہ ممالک پر لازم ہے کہ وہ نہ صرف اپنا کردار تسلیم کریں بلکہ مالیاتی نظام میں ایسی اصلاحات لائیں جن سے ترقی پذیر ممالک کو اپنے لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے خودمختاری حاصل ہو۔ یہ عمل صرف قرض کی معافی یا امداد نہیں، بلکہ ترقیاتی انصاف (Development Justice) کا تقاضا ہے۔
سیویل میں منعقدہ FfD4 کانفرنس سے بہت سی امیدیں وابستہ تھیں، لیکن یہ اجلاس بھی امیر ممالک کے مفادات کا محافظ بن کر رہ گیا۔ اس
نے خواتین، لڑکیوں، اور صنفی اقلیتوں کو صرف ”معاشی اثاثہ” سمجھا، جب کہ ان کی زندگیوں سے جڑے اہم مسائل جیسے کام کی جگہ پر تحفظ، اجرتی مساوات، اور صنفی تشدد کی روک تھام کو نظر انداز کیا گیا۔یہ کانفرنس ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی بن گئی کہ جب تک عالمی نظام کی باگ ڈور طاقتور ہاتھوں میں ہے، حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔
این ایم پی پلس (NMP+): ایک مثال جو امید جگاتی ہے
ایسے وقت میں جب دنیا کے کئی ممالک صرف امداد پر انحصار کر رہے ہیں، مہاراشٹر میں قائم ”این ایم پی+” نامی تنظیم ایک روشن مثال کے طور پر سامنے آئی ہے۔ یہ ادارہ گزشتہ 25 برسوں سے ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزارنے والے افراد کے لیے نہ صرف خدمات فراہم کر رہا ہے بلکہ ایک خود کفیل ماڈل بھی پیش کر رہا ہے۔مشہور جرمن اداکارہ انابیل مانڈینگ، جو دو دہائیوں سے ایچ آئی وی متاثرہ افراد کے حق میں آواز بلند کر رہی ہیں، نے این ایم پی+ کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے کہا:”جب میں این ایم پی پلس کے بارے میں پڑھتی ہوں تو مارگریٹ میڈ کے الفاظ یاد آتے ہیں: ‘کبھی شک نہ کرو کہ سوچے سمجھے اور پرعزم شہریوں کا ایک چھوٹا سا گروہ دنیا کو بدل سکتا ہے درحقیقت، ہمیشہ ایسا ہی ہوا ہے۔”’ این ایم پی+ کے تحت کام کرنے والا منصوبہ ”ٹی اے اے ایل پلس” (Treatment, Adherence, Advocacy, Literacy) ایک کمیونٹی پر مبنی ای-فارمیسی ہے، جو 2006 سے نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہی ہے۔ یہاں ایچ آئی وی، جنسی بیماریوں، دیگر امراض، اور احتیاطی علاج جیسے PreP وغیرہ کی معیاری خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔جہاں عالمی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے، وہیں اصل امید عالمی جنوب کے ان لوگوں میں ہے جو نچلی سطح سے تبدیلی لا رہے ہیں۔ این ایم پی+ جیسے ادارے ہمیں سکھاتے ہیں کہ اگر ارادہ، قیادت اور اتحاد ہو تو کسی بھی ناانصافی کو چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ترقی کا خواب صرف اعداد و شمار یا اہداف سے مکمل نہیں ہوتا، بلکہ لوگوں کی شمولیت، وقار، اور مساوات سے تعبیر پاتا ہے۔