دنیا میں آج بھی 73کروڑ لوگ فاقہ کشی کا شکار

عندلیب اختر
عالمگیر بحرانوں نے کروڑوں لوگوں کے لیے غذائی قلت کے مسائل کو مزیدسنگین بنا دیا ہے اور صحت بخش خوراک تک ان کی رسائی محدود کر دی ہے۔ دنیا میں 73 کروڑ لوگوں کو آ ج بھی بھوک کا سامنا ہے اور 2.8 ارب لوگ صحت بخش خوراک کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے۔ وہیں غذائیت والی مخصوص خوراک (آر یو ٹی ایف) کی کمی کے باعث دنیا میں 10 لاکھ بچے شدید جسمانی کمزوری کا شکار اور موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔جنگوں، معاشی دھچکوں اور موسمیاتی بحران کی وجہ سے کئی ممالک میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی بڑی تعداد ‘شدید درجے کی جسمانی کمزوری’ کا شکار ہے۔یہ غذائی قلت کی بلند ترین سطح ہے اور غذائیت بھری محفوظ خوراک سے محروم اور اسہال، خسرے اور ملیریا جیسی بیماریوں کا متواتر نشانہ بننے والے بچے اس سے متاثر ہوتے ہیں۔

عالمی یوم خوراک جو کے ہر سال 16 اکتوبر کو منایا جاتا ہے کے موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ دنیا سے بھوک کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے غذائی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ اربوں بچوں، خواتین اور مردوں کو مستقل بنیادوں پر بھوک اور غذائیت کی کمی کا سامنا ہے جو دنیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس پر قابو پانے کے لیے حکومتوں کے ساتھ کاروباروں، ماہرین تعلیم، تحقیقی اداروں اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا اور غذائی نظام کو مزید موثر، مشمولہ، مضبوط اور مستحکم بنانا ہو گا۔ خوراک کا عالمی دن ہر سال 16 اکتوبر کو منایا جاتا ہے جس کا مقصد غذائی وسائل میں اضافہ کرنا اور خوراک کا تحفط یقینی بنانا ہے تاکہ تیزی سے بڑھتی آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ملکی، علاقائی اور عالمی سطح پر مربوط حکمت عملی اختیار کی جا سکے۔


استعداد اور مساوات کا مسئلہ
سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ دنیا بھر کے ان 73 کروڑ 30 لاکھ لوگوں کی مدد کرنے کے عزم کا دن ہے جنہیں جنگوں، پسماندگی، موسمیاتی تبدیلی، غربت اور معاشی گراوٹ کے باعث شدید بھوک کا سامنا ہے۔ ان میں غزہ اور سوڈان کے لوگ بھی شامل ہیں جنہیں انسان کے ہاتھوں پیدا کردہ قحط درپیش ہے۔ دنیا میں 2.8 ارب لوگ صحت بخش خوراک کے حصول کی استطاعت نہیں رکھتے۔ ان میں موٹاپے کا شکار لوگ بھی شامل ہیں اور یہ مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔غذائی نظام پر 2021 میں ہونے والی کانفرنس نے دنیا کو نظام ہائے خوراک میں استعداد اور مساوات کی کمی پر قابو پانے کی راہ سجھائی تھی۔پیداوار میں اضافے کی ترغیب دینے اور غذائیت بھری صحت بخش خوراک مناسب قیمت پر فروخت کرنے کے لیے حکومتوں کو تمام شراکت داروں کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ بھوک اور غذائیت کی کمی کے خلاف جدوجہد کرے اور بہتر زندگی اور بہتر مستقبل کی خاطر خوراک تک رسائی کے حق کو برقرار رکھنے کے اقدامات کرے۔
اس موقعے پر اقوام متحدہ کے ادارہ خوراک و زراعت (ایف اے او) کے ڈائریکٹر جنرل کو ڈونگ یو نے کہا ہے کہ دنیا کو

خوراک کی فراہمی کے لیے مزید موثر، مشمولہ، مضبوط اور پائیدار زرعی غذائی نظام درکار ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ غذائیت والی، محفوظ اور ارزاں خوراک تک رسائی ایک بنیادی انسانی حق ہے۔ تمام لوگوں کا یہ حق یقینی بنانے اور انہیں درکار خوراک تک رسائی میں حائل مسائل پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے اور اس معاملے میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔


امسال اس عالمی دن کا موضوع ‘بہتر زندگی اور بہتر مستقبل کے لیے خوراک تک رسائی کا حق’ اس بات کی بروقت یاد دہانی ہے کہ تمام لوگوں کو اپنی ضرورت کے مطابق خوراک کے حصول کا حق ہے۔اس مقصد کے لیے چھوٹے کسانوں، گھریلو سطح پر زرعی خوراک پیدا کرنے والوں اور چھوٹے پیمانے پر خوراک کے کاروبار سے وابستہ لوگوں کو مدد دینا ہو گی۔ بہت سے ممالک میں غذائیت بھری متنوع خوراک پیدا کرنے اور روایتی غذائی رواج کو تحفظ دینے میں ان کسانوں اور کاروباری لوگوں کا اہم ترین کردار ہوتا ہے۔


تقریب سے خطاب کرتے ہوئے غذائیت کے لیے ‘ایف اے او’ کے خصوصی خیرسگالی سفیر اور لیسوتھو کے بادشاہ لیستے سوئم نے کہا کہ افریقن یونین کی ‘پین افریقن پارلیمنٹ’ نے ‘ایف اے او’ کے تعاون سے غذائی تحفظ اور غذائیت کے حوالے سے ایک مثالی قانون بنایا ہے۔ اس سے یونین کے رکن ممالک کو اپنے ہاں حسب ضرورت خوراک تک رسائی کے حق کو برقرار رکھنے اور تمام شہریوں کے لیے غذائی تحفظ ممکن بنانے کی غرض سے قانون سازی میں مدد ملے گی۔


یونیسف کا شفائی غذاء کی اہمیت پر زور
غذائیت والی مخصوص خوراک (آر یو ٹی ایف) کی کمی کے باعث دنیا میں 10 لاکھ بچے شدید جسمانی کمزوری کا شکار اور موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔جنگوں، معاشی دھچکوں اور موسمیاتی بحران کی وجہ سے کئی ممالک میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی بڑی تعداد ‘شدید درجے کی جسمانی کمزوری’ کا شکار ہے۔یہ غذائی قلت کی بلند ترین سطح ہے اور غذائیت بھری محفوظ خوراک سے محروم اور اسہال، خسرے اور ملیریا جیسی بیماریوں کا متواتر نشانہ بننے والے بچے اس سے متاثر ہوتے ہیں۔عالمی ادارہ اطفال (یونیسف) نے اپنی ایک رپورٹ بتایا ہے کہ کہ شدید جسمانی کمزوری کا شکار بچے دبلے ہوتے جاتے ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بھی کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس طرح ان کی بڑھوتری متاثر ہوتی ہے اور بالآخر وہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔’آر یو ٹی ایف’ خشک دودھ، مونگ پھلی، مکھن، مچھلی کے تیل، چینی اور کئی طرح کے وٹامن اور نمکیات کو ملا کر بنایا جاتا ہے۔ اس سے دنیا بھر میں لاکھوں بچوں میں شدید غذائی قلت سے پیدا ہونے والے جسمانی مسائل پر قابو پایا جا چکا ہے۔یونیسف میں بچوں کی غذائیت اور بڑھوتری کے شعبے کے ڈائریکٹر وکٹر آگوایو نے کہا ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران بچوں میں جسمانی کمزوری اور اس کے نتیجے میں ہونے والی اموات پر قابو پانے کے لیے غذائیت کے پروگراموں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ اس ضمن میں جنگوں، موسمیاتی تبدیلی اور معاشی مسائل سے دوچار ممالک میں بھی حوصلہ افزا صورتحال دیکھنے کو ملی ہے۔تاہم، ان کا کہنا ہے کہ اس خاموش قاتل پر قابو پانے اور تقریباً 20 لاکھ بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔


‘آر یو ٹی ایف’ کی قلت
یونیسف نے کہا ہے کہ ‘آر یو ٹی ایف’ کی قلت کے باعث 12 غریب ترین ممالک میں بچوں کو اس غذائیت سے محرومی کا خدشہ ہے۔ افریقی ملک مالی، نائجیریا، نیجر اور چاڈ میں اس کا ذخیرہ ختم ہو چکا ہے یا ختم ہونے کو ہے جبکہ کیمرون، پاکستان، سوڈان، مڈغاسکر، جنوبی سوڈان، کینیا، جمہوریہ کانگو اور یوگنڈا میں اس خوراک کا ذخیرہ آئندہ سال کے وسط تک ختم ہو سکتا ہے۔افریقہ کے ساہل خطے میں طویل خشک سالی، سیلاب اور بہت کم یا شدید بارشوں کے باعث صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ بگڑ چکی ہے۔ ان قدرتی آفات کے نتیجے میں خوراک کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے اور اس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جس کا نتیجہ بچوں میں جسمانی کمزوری کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔
رواں سال مالی میں پانچ سال سے کم عمر کے 300,000 سے زیادہ بچوں کے شدید جسمانی کمزوری کا شکار ہونے کا خدشہ ہے جہاں جولائی کے آخر تک غذائیت کے پروگراموں کو ‘آر یو ٹی ایف’ کی قلت کا سامنا تھا۔’ یونیسف کو جسمانی کمزوری کے باعث موت کے خطرے سے دوچار بیس لاکھ بچوں کا علاج کرنے کے لیے 165 ملین ڈالر درکار ہیں۔ ادارے نے اس مقصد کے لیے ‘تاخیر کی گنجائش نہیں ‘ کے نام سے 2022 میں ایک اقدام شروع کیا تھا جس کا مقصد دنیا بھر میں خوراک اور غذائیت کے بحران پر قابو پانا تھا۔


اس کے بعد ادارے نے غذائیت کے پروگراموں میں اضافہ کرنے اور جسمانی کمزور کا سامنا کرنے والے بچوں کو علاج مہیا کرنے کے لیے 900 ملین ڈالر جمع کیے۔ اس طرح 21.5 ملین بچوں اور خواتین کو ضروری خدمات میسر آئیں جبکہ 46 ملین بچوں کو غذائی قلت کی بروقت تشخیص سے متعلق خدمات تک رسائی ملی۔ اس کے علاوہ 5.6 ملین بچوں کو ان کی زندگی بچانے کے لیے ضروری علاج معالجہ بھی مہیا کیا گیا۔ رواں سال اس اقدام کو مالی وسائل کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ یونیسف نے بچوں کے لیے ضروری غذائی اجزا کی مقامی سطح پر تیاری کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے تاکہ ہر جگہ اس مسئلے کو شدت اختیار کرنے سے روکا جا سکے۔


بچوں کے لیے غذائیت فنڈ
یونیسف نے بچوں میں طویل مدتی غذائی قلت پر قابو پانے کے لیے گزشتہ سال ‘بچوں کا غذائیت فنڈ (سی این ایف) قائم کیا تھا جس میں اسے یونائیٹڈ کنگڈم فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈویلپمنٹ فنڈ، بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن اور چلڈرن انویسٹمنٹ فنڈ فاؤنڈیشن کی مدد بھی حاصل رہی۔اس مسئلے سے بری طرح متاثرہ ممالک میں مقامی اور علاقائی سطح پر بچوں کے لیے مقوی خوراک، غذائی سپلیمنٹ اور ‘آر یو ٹی
ایف’ کی تیاری میں مدد دینا بھی ‘سی این ایف’ کے مقاصد میں شامل ہے۔AMN