جاوید اختر
اب جب کہ ہندوستان میں ٹیکہ کاری کی دنیا کی سب سے بڑی مہم کے تحت کووڈ ویکسین لگانے کا سلسلہ اگلے ہفتے شروع ہونے جارہا ہے۔ ماہرین اس کی افادیت اور ان کی منظوری دیے جانے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھائے رہے ہیں۔ماہرین کا کہناہے کہ ویکسینز کی افادیت کے متعلق تجربات کے ڈیٹا کو عام کیے بغیر انہیں منظوری دینا شبہات پیدا کرتا ہے۔
حکومت نے پونے میں واقع سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایس آئی آئی) کی تیار کردہ آکسفرڈ۔اسٹروزینکا کی ویکسین’کووی شیلڈ‘ اور حیدرآباد میں واقع بھارت بایو ٹیک کی ویکسین’کوویکسین‘ کو منظوری دی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہناہے کہ کسی ویکسین کی افادیت کے حوالے سے جتنی معلومات عام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ان دونوں ویکسین کے سلسلے میں نہیں کی گئی ہے۔
کسی بھی ویکسین کے تیسرے مرحلے کے تجربات کے ڈیٹا کو کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔اس میں کچھ لوگوں کو ویکسین دی جاتی ہے او رکچھ کو نہیں دی جاتی ہے اور پھر دونوں گروپوں میں بیماری کے پھیلنے کی شر ح کا موازنہ کیا جاتا ہے اور یہ معلومات عام کی جاتی ہے۔ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے اپنی ویکسین’کووی شیلڈ‘ کے برطانیہ اور برازیل میں ہونے والے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے اعدادو شمار جاری کیے ہیں لیکن ہندوستان میں 1600افراد پر کیے جانے والے ٹرائل کے اعدادوشمار کو عام نہیں کیا ہے۔ ا س سے بھی زیادہ بڑے سوالات’کوویکسین‘ کے سلسلے میں اٹھ رہے ہیں۔ بھارت بایوٹیک اپنی اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے لیے ابھی تک رضاکاروں کا اندراج ہی مکمل نہیں ہوا ہے۔
ماہرین یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر ایسے میں ان ویکسینز کو اجازت دینے کی جلدبازی کیا تھی۔ اتنی جلدبازی میں اجازت کیوں دی گئی۔ گزشتہ برس پندرہ اگست کو ہی بھارت بایو ٹیک کی ویکسین کو لانچ کردئیے جانے کی خبرپھیلاتے ہوئے کہا جارہا تھا کہ ہندوستان ویکسین کی تیاری میں پوری دنیا پر بازی مار لے گا۔
انڈین جرنل آف میڈیکل ایتھکس کے ایڈیٹر ڈاکٹر امر جیسانی کہتے ہیں ”آخر کس ڈیٹا کی بنیاد پر ماہرین کی کمیٹی نے دونوں ویکسین کی سفارش کی ہے؟ بھارت بایو ٹیک کا معاملہ تو اور بھی افسوس ناک ہے کیوں کہ وہ ابھی تک تیسرے مرحلے کے تجربے کے لیے رضاکاروں کی تقرری بھی مکمل نہیں کر پائی ہے۔ اس کے باوجود اسے منظوری دے دی گئی۔“
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف بایو ایتھیکس کے سابق صدر ڈاکٹر اننت بھان کہتے ہیں کہ”منظوری دینے کے طریقہ کار میں اعتماد سازی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن یہاں بہت سے ماہرین کو یقین ہی نہیں ہے اور وہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ ویکسین واقعی موثر ثابت ہوگی۔ جن دیگر ممالک نے ویکسین کی افادیت کے حوالے سے ڈیٹاکوعام کیے بغیر ویکسین کو منظوری دی ہے وہ صرف روس اور چین ہیں۔“ ڈاکٹر بھان کا مزید کہنا تھا ”دونوں ویکسینز کو منظوری دینے کے لیے جس طرح کی زبان استعمال کی گئی ہے وہ قانون سے زیادہ ادب کی زبان معلوم پڑتی ہے۔“
بھارت بایو ٹیک کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر کرشنا ایلا نے ’کوویکسین‘ پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کے لیے گزشتہ پیر کے روز پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے دعوی کیاکہ’کوویکسین‘کووڈ۔19اور اس کی نئی قسم دونوں میں ہی موثر ثابت ہوگی اور ہم جلد ہی اس کا ثبوت پیش کردیں گے۔ ڈاکٹر ایلا کا کہنا تھا”ٹھیک ہے یہ ابھی ایک نظریہ ہے…لیکن مجھے صرف ایک ہفتے کا وقت دیجئے اور میں مصدقہ اعدادو شمار پیش کردوں گا۔“
معروف وائرولوجسٹ ڈاکٹر گگن دیپ کانگ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیانے نہایت واضح ہدایات دی تھیں کہ اس طرح کی معلومات کو عام کرنا ضروری ہے لیکن اس کے باوجود ’کوویکسین‘کے بارے میں ضروری ڈیٹا ابھی تک دستیاب نہیں ہوا ہے۔
دوسری طرف حکومت نے ویکسین کے حوالے سے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسے بیک اپ کے طورپر اجازت دی گئی ہے اور اس کا استعمال اسی صورت میں کیا جائے گا جب آکسفرڈ کی ویکسین کی خوراک کم پڑ جائیں گی یا اگر انفکشن کے معاملے اچانک بڑھنے لگیں گے۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت تک کوویکسین کلینیکل ٹرائل کے مرحلے میں ہی رہے گی۔
نئی دہلی میں ایمس کے سربراہ اورکووڈ۔19نیشنل ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر رندیپ گلیریا کا کہنا تھا ”اگر ہم دیکھیں گے کہ کیسیز میں اضافہ نہیں ہورہا ہے تو ہم ’کووی شیلڈ‘ پر ہی انحصار کریں گے۔جب بھارت بایو ٹیک کے ڈیٹا سامنے آجائیں گے اور اگرہم نے ڈیٹا کو خاطر خواہ پایا تواسے بھی سیرم انسٹی ٹیوٹ کے ویکسین کی طرح ہی منظوری مل جائے گی۔ میرے خیال میں ڈرگس ریگولیٹر(ڈی سی جی آئی)نے ہری جھنڈی دے دی ہے کہ اگر ہمیں ضرورت ہو تو ہم ویکسین کا ذخیرہ کرسکتے ہیں۔“
ڈرگ کنٹرولر جنرل آف انڈیا ڈاکٹر و ی جی سومانی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ویکسین کو”مفاد عامہ میں استعمال‘‘ کی اجازت دی گئی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ اجازت کس ڈیٹا کی بنیاد پر دی گئی ہے۔ انہوں نے میڈیا کے سامنے ایک بیان پڑھا اور کسی کو اس پر سوال پوچھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
غیر سرکاری تنظیم آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک نے ایک بیان جاری کرکے ڈی سی جی آئی سے ویکسین کی منظوری کے حوالے سے ان کی طرف سے جاری کردہ بیان کے متعلق تمام ڈیٹا اور تجزیے کو عام کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ ان کی آزادانہ تصدیق کی جاسکے۔ (اے ایم این)