طلاق ثلاثہ قانون کو جمعیۃعلماء ہند و دیگر مسلم جماعتوں نے سپریم کورٹ میں کیا چیلنج

نئی دہلی 23 اگست
مسلمانوں کی نمائندہ فعال ومتحرک تنظیم جمعیۃ علماء ہند اور دیگر مسلم جماعتوں کی جانب سے طلاق ثلاثہ قانون کے خلاف داخل کردہ عرضداشتوں کو آج سپریم کورٹ آف انڈیا نے سماعت کے لیئے قبول کرتے ہوئے مرکزی سرکار کونوٹس جاری کیا ہے۔سپریم کورٹ آف انڈیا کی دو رکنی بینچ کے جسٹس وی این رمنا اور جسٹس اجئے رستوگی نے حال ہی میں پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کئے گئے طلاق ثلاثہ قانو ن کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع عرضداشتیں جو آئین ہند کی دفعہ 32 کے تحت سول رٹ پٹیشن داخل کی گئی تھی کو سماعت کے لیئے قبول کرلیا۔یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمداعظمی نے دی اور انہوں نے مزید بتایا کہ طلاق ثلاثہ کے معاملے میں جب سپریم کورٹ میں سال 2017 سماعت ہوئی تھی اس وقت جمعیۃ علماء فریق اول تھی اور عدالت میں جمعیۃ علماء کے وکلاء نے بحث بھی کی تھی لیکن اب جبکہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق پارلیمنٹ نے قانون بنا دیا ہے جس میں تین سال تک کی سزا کا اعلان کیا گیا ہے اس کے خلاف جمعیۃ علماء سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی ہے کیونکہ پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق قانون تو بنا دیا ہے لیکن اس میں جو دفعات لگائی گئی ہیں وہ سپریم کورٹ کئے فیصلہ کے برعکس ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے متوازن قانون بنانے کا مشورہ دیاتھا جس میں سزاء کا کہیں ذکر نہیں تھا لیکن موجودہ حکومت نے سپریم کورٹ کی گائڈلائنس کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہماری پٹیشن (Civil Writ Petition No 1083/2019)میں جو سب سے ا ہم سوال اٹھایا گیا ہے وہ طلاق کے معاملہ میں کریمنل سزا کا فیصلہ ہے جو قانوناً صحیح نہیں ہے کیونکہ شادی ایک سول معاہدہ ہوتا ہے اور اگر کوئی معاہدہ کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر جرمانہ عائد کیا جاسکتاہے، جیل بھیج دینا قطعی درست نہیں ہے۔آج سپریم کورٹ نے جمعیۃ علماء ہند، سمستھا کیرالا جمعیۃ علماء اور دیگر مسلم تنظیموں کی جانب سے داخل کردہ عرضداشتوں کی ایک ساتھ سماعت کرتے ہو ئے پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج ایکٹ 2019 (طلاق ثلاثہ قانون) بنانے والی مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔جمعیۃ علماء ہند اور دیگرمسلم جماعتوں کی جانب سے آج عدالت میں ایڈوکیٹ گورو اگروال،ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، سینئر وکلاء سلمان خورشید، حذیفہ احمدی، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ارشاد حنیف، مجاہد احمد، عارف علی و دیگر حاضر ہوئے تھے جن کے دلائل کی سماعت کے بعد دو رکنی بینچ نے مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا۔جمعیۃ علماء نے اپنی عرضداشت میں ایک اہم سوال اٹھایا تھا کہ اس قانون کے مطابق تین طلاق دینے والے شخص پر مجرمامہ مقدمہ درج ہوگا اور مرد کی جانب سے داخل کردہ ضمانت کی عرضداشت پرسماعت کے دوران مطلقہ کی رائے کو جاننا ضروری قرار دیا جس پر اعتراض کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ کریمنل قانون کے اصولوں کے خلاف ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے داخل کردہ عرضداشت میں صدرجمعیۃ علماء مہاراشٹر مولانا مستقیم احسن اعظمی پٹیشنر ہیں اس سے قبل بھی انہوں نے سال 2015سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی تھی جس پر فیصلہ آیا تھاکہ حکومت متوازن قانون بنائے۔
پریس ریلیز
