دنیا کی سب سے طاقت ور ریڈیو دوربین
آسٹریلیا کے ایک دور افتادہ مغربی علاقے میں دنیا کی سب سے بڑی ریڈیو دوربین نصب کرنے کے کام کا آغاز ہو گیا ہے۔ ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے دور دراز سیاروں اور کہکشاؤں سے آنے والے سگنلز کو وصول کرنے اور ان پر تحقیق میں مدد ملے گی۔
اس ریڈیو دوربین کی خاصیت یہ ہے کہ اسے بین الاقوامی سائنسی تعاون حاصل ہے جس کے ذریعے ایک لاکھ 30 ہزار اینٹیا اور 200 سیٹلائٹس کو آپس میں مربوط کیا جائے گا جس سے ریڈیو دوربین کا قطرایک مربع کلو میٹر ہو جائے گا۔اس دور بین کی دو طاقت ور رسد گاہیں آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں دیو قامت اور انتہائی حساس دوربینوں پر مشتمل ہو نگی۔سائنس دانوں کو توقع ہے کہ یہ ریڈیو دور بین خلا سے موصول ہونے والے سگنلز سن کر اور خلا کی گہرائیوں میں دیکھ کرایسے بنیادی سوالات کا جواب تلاش کرنے میں مدد دے سکتی ہے کہ کیا ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا کسی اور سیارے میں بھی کوئی مخلوق موجود ہے؟ اولین ستاروں نے چمکنا کیسے شروع کیا اور ’ڈارک انرجی‘ کیاہے جو پر اسرار انداز میں کائنات کو الگ کر رہی ہے؟ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ریڈیو دوربین کو ایک ایسے دور افتادہ مقام پر نصب کرنے کی ضرورت ہے جہاں زمین پر پھیلی ہوئی ریڈیائی لہریں مثال کے طور پر کمپیوٹروں، کاروں، طیاروں اور دوسرے الیکٹرانک آلات سے خارج ہونے والی برقی مقناطیسی لہریں اس کی کارکردگی میں خلل نہ ڈال سکیں۔سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کائنات کے مطالعے اور تحقیق کے لیے قائم کی جانے والی یہ دوربین، زمین پر موجود اسی نوعیت کی دیگر دوربینوں کے مقابلے میں 8 گنا زیادہ حساس ہو گی اور اس میں اسی نوعیت کی دیگر دوربینوں نے مقابلے میں 135 گنا زیادہ تیزی سے آسمان کا نقشہ بنانے کی صلاحیت ہو گی۔۔
ٹک ٹاک سے امریکہ کو کیا خطرہ؟
کڑوروں فالوورز کے ساتھ نوجوانوں میں مقبول ترین ایپس میں شمار ہونے والی ایپ، ٹک ٹاک آئے روز تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟ بھارت نے ٹک ٹاک کو ملکی دفاع، سالمیت اور امن عامہ کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے 2020 میں بند کر دیا تھا۔ پاکستان، انڈونیشیا، بنگلہ دیش نے ٹک ٹاک کے کانٹینٹ کو اپنے کلچر اور اخلاقیات سے متصادم پایا اور اس ایپ پر پابندیاں لگائیں۔۔مغربی ممالک سے بار بار ٹک ٹاک کے پرائیویسی پالیسی اور صارفین کے ڈیٹا تک رسائی کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں سیکیورٹی سے متعلق امریکی ادارے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے مختلف بیانات میں ٹک ٹاک کو امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ایف بی آئی والے ٹک ٹاک ایپ پر قومی سلامتی سے متعلق خدشات رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی کمپنی چینی حکومت کے کنٹرول میں ہے جو اس ایپ کو یہ صلاحیت فرہم کرتی ہے کہ وہ ایسے فوائد اٹھا سکیں جن کے بارے میں، میرے خیال میں، ہمیں تشویش ہونی چاہیے۔”امریکی حکومت کے ٹک ٹاک کے چینی حکومتی پارٹی کے زیر اثر ہونے سے متعلق یہ خدشات نئے نہیں۔ اس سے پہلے سابق صدر ٹرمپ نے 2020 میں قومی سلامتی سے متعلقہ تحفظات پر ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے امریکہ میں عملاً ٹک ٹاک پر پابندی لگا ئی تھی۔ تاہم ٹک ٹاک نے اس حکم نامے کو روکنے کے لیے قانونی چارہ جوئی کی تھی۔ گزشتہ برس صدر جو بائیڈن نے ٹرمپ دور میں لیے گئے اقدامات کو منسوخ کرکے محکمہ خزانہ کو ایپ سے متعلق سکیورٹی خدشات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔
مسلح روبوٹ کے استعمال کی اجازت
سان فرانسسکو میں پولیس کے بورڈآف سپر وائزرز نے محکمے کو ہتھیاروں سے لیس روبوٹس کو ایسے حالات میں استعمال کی اجازت دے دی ہے جہاں زندگیاں خطرے میں ہوں اور کوئی متبادل دستیاب نہ ہو۔ یہ اجازت ایسے میں دی گئی ہے جب امریکہ بھر میں پولیس کو ہتھیاروں اور طاقت کے استعمال پر بڑھتی ہوئی جانچ پڑتال کا سامنا ہے۔یہ ایک نئی اور ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے جو اب بڑے پیمانے پر استعمال کے لیے دستیاب ہے، لیکن اس کا استعمال ابھی تک کبھی کبھار ہی کیا جاتا ہے۔امریکہ بھر میں پولیس نے گزشتہ عشرے میں روبوٹس کو محاصرے میں لیے جانے والے مشتبہ افراد سے رابطے، ممکنہ خطرناک مقامات میں داخلے اور انتہائی شاز نادر واقعات میں ہلاکت خیز ہتھیار طور پر استعمال کیا ہے۔ڈیلس پولیس وہ پہلی فورس تھی جس نے 2016 میں ایک ایسے اسنائپر کو ہلاک کرنے کے لیے مسلح روبوٹ استعمال کیا تھا، جو پانچ پولیس اہل کاروں کو ہلاک اور دیگر 9 افراد کو زخمی کر چکا تھا۔سان فرانسسکو میں پولیس کے اس حالیہ فیصلے نے کسی مشتبہ شخص کو ہلاک کرنے کے لیے روبوٹس کے استعمال کے اخلاقی پہلو اور متعلقہ پالیسیوں کے مضمرات پر برسوں قبل شروع ہونے والی بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔اری زونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے اسکول آف کریمنولوجی اینڈکریمنل جسٹس کے ایک پروفیسر مائیکل وائٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ کمپنیاں محاصروں کے خاتمے کے لیے مہلک روبوٹس تیار کر چکی ہیں او ر جسم پر پہنے جانے والے ایسے کیمرے بھی تیار ہو چکے ہیں جن میں چہروں کی پہچان کے سافٹ وئیر نصب ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ پولیس ڈپارٹمنٹ انہیں خرید ے گی کیوں کہ کمیونٹیز اس سطح کی نگرانی کی حمایت نہیں کرتیں۔