جاوید اختر
سماجی امور کے حوالے سے سرگرم بین الاقوامی تنظیم آکسفیم نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ماہانہ اوسط آمدن غیر مسلموں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔جس کا سبب لیبر مارکیٹ میں ان کے ساتھ روا تفریقی سلوک ہے۔آکسفیم انڈیا نے گزشتہ دنوں ”انڈیا ڈسکریمینیشن اپورٹ 2022 ”جاری کی ہے۔رپورٹ کے مطابق مختلف سماجی شعبوں میں ہندوستانی مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے میں تفریق آمیز سلوک کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں مختلف سماجی امور مثلاً ملازمت، رہائش اور زراعت کے حوالے سے15برس اور اس سے زیادہ عمر کے بھارت کے مسلمانوں اورغیر مسلموں کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔


رپورٹ کے مطابق سن 2019-20میں ملک کے شہری علاقوں میں مستقل ملازمتوں میں غیر مسلموں کی تعداد 23.3فیصد تھی لیکن مسلمانوں کی تعداد صرف 15.6فیصد تھی۔رپورٹ میں کہاگیا ہے،” شہری آبادیوں میں مسلمانوں کو روزگار کے معاملے میں 68فیصد تفریقی سلوک کا شکار ہونا پڑا۔ تفریق کی وجہ سے سال 2019-20میں اجرت پر کام کرنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کی تنخواہوں میں 70فیصد کا فرق تھا۔
رپورٹ کے مطابق کووڈ انیس وبا کی پہلی سہ ماہی کے دوران دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی بے روزگاری میں سب سے زیادہ 17 فیصد کا اضافہ ہوا۔” کووڈ کے دوران تنخواہ یافتہ ملازمین میں مسلمان سب سے زیادہ متاثر ہوئے ان کی تعداد 11.8فیصد سے بڑھ کر 40.9فیصد ہوگئی۔جبکہ متاثر ہونے والے عام غیر مسلموں کی تعداد 28.1فیصد رہی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں مسلمانوں کی آمدن میں ریکارڈ 13فیصد کی گراوٹ آئی جب کہ دیگر فرقوں میں یہ تعداد 9فیصد رہی۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
رپورٹ کو تیار کرنے والی ٹیم کے سربراہ معروف ماہرسماجیات ڈاکٹر امیتابھ کنڈوکا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری میں سائنسی اصولوں کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
ورلڈ ریسورس سینٹر کے سینیئر فیلوامیتابھ کنڈو نے کہا کہ یہ رپورٹ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کی تیاری میں صرف سرکاری اعدادو شمار کا استعمال کیا گیا ہے۔ ”ہم نے پایا کہ تفریق یا ڈسکریمنیشن واقعی ایک مسئلہ ہے اور اس میں جتنی کمی کی ہونی چاہئے تھی اتنی نہیں ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر مسلمانوں اور غیر مسلموں میں اسکل کا فرق زیادہ ہو تو ظاہر ہے کہ لیبر مارکیٹ میں مسلمان غیر مسلموں کے مقابلے میں پیچھے رہیں گے لیکن اگر دونوں کے اسکل میں کوئی زیادہ فرق نہ ہو اور لیبر مارکیٹ میں دونوں کی تعداد میں 30فیصد کا فرق ہو تو اسے تفریق یا
ڈسکریمینیشن مانا جائے گا۔
خود روزگار میں بھی تفریق
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنخواہ والی ملازمت اور خود روزگارسے ہونے والی آمدنی کے شعبے میں بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مقابلے میں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تنخواہ دار غیر مسلموں کی اوسطاً آمدن 20346روپے ماہانہ ہے جو کہ مسلمانوں کے مقابلے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق تنخواہ دار مسلمانوں کی اوسطاً ماہانہ آمدن 13672روپے ہے۔
رپورٹ کے مطابق خودروزگار کے شعبے میں غیرمسلموں کی ماہانہ اوسط آمدن 15878روپے ہے جب کہ مسلمانوں کی اوسط ماہانہ آمدن 11421روپے ہے حالانکہ خودروزگار کے معاملے میں مسلمانوں کی تعداد ہندووں کے مقابلے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ غیر مسلم مسلمانوں کے مقابلے ایک تہائی زیادہ کماتے ہیں۔
اس صورتحال کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟
امیتابھ کنڈو کا کہنا ہے کہ حکومت کی اپنی ذمہ داری یقینا ہے لیکن ساتھ ہی سول سوسائٹی او رمسلم کمیونٹی کو بھی کوشش کرنی ہوگی۔ اگر آپ صرف حکومت پر چھوڑ دیں تو اسے بہتر بنانا ممکن نہیں ہوگا۔انہوں نے کہا،” اگر اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات نہیں کیے گئے تو اگلے پانچ برسوں میں دس ٹریلین ڈالر کی معیشت بننے کا ہندوستان کا خواب پورا نہیں ہوسکے گا۔”
آکسفیم کے سی ای او امیتابھ بیہار کہتے ہیں سماج پر تفریق یا ڈسکریمینیشن کے صرف سماجی اور اخلاقی مضمرات ہی نہیں پڑتے بلکہ اس کے اقتصادی مضمرات بھی ہوتے ہیں جس کے دیرپا منفی اثرات پڑتے ہیں۔(اے ایم این)