اسد مرزا
عالمی معاشی منظر نامہ اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعہ نے اس سال کے لیے ہندوستان کی ترقی کی شرح میں کمی آنے کے اشارے نے ملک میں بے چینی سی پیدہ کر دی ہے۔ دراصل جنوبی ایشیا میں حالیہ علاقائی اقتصادی اور سیاسی بحران، جن میں سے زیادہ تر ہندوستان کے قریبی پڑوسی ملک ہیں، وہاں کے حالیہ حالات نے ہندوستانی حکومت اور انتظامیہ میں مزید تشویش پیدا کردی ہے۔ان ملکوں میں سری لنکا، نیپال اور مالدیپ میں معاشی ابتری اور پاکستان میں سیاسی بحران ہندوستان کو کئی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ مختلف بحرانوں کے معاشی اثرات جلد ہی اپنے آپ کو ظاہر کرنا شروع کر دیں گے، اگر ان ممالک کی حکومتیں ان بحرانوں کو جلد حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان، ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) نے ریپو ریٹ کو 4% سے بڑھا کر 4.40% کر دیا ہے۔ یعنی، آپ کا قرض مہنگا ہونے والا ہے اور آپ کو زیادہ EMI ادا کرنا پڑے گا۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس 2 اور 3 مئی کو ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔ مانیٹری پالیسی کا اجلاس ہر دو ماہ بعد ہوتا ہے۔ آخری میٹنگ 6-8 اپریل کو ہوئی تھی۔ آخری بار ریپو ریٹ میں تبدیلی 22 مئی 2020 کو ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے یہ 4% کی تاریخی کم ترین سطح پر ہے۔ ریپو ریٹ وہ شرح ہے جس پر بینکوں کو آر بی آئی سے قرض ملتا ہے، جبکہ ریورس ریپو ریٹ وہ شرح ہے جس پر بینکوں کو اپنا پیسہ آر بی آئی کے پاس رکھنے پر سود ملتا ہے۔
سری لنکا میں معاشی بدحالی کو فی الحال سفارتی اور تجارتی اثرات کے ساتھ MEA کے ذریعہ سب سے زیادہ دباؤ والے غیر ملکی چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔گزشتہ برسوں کے دوران سری لنکا کی معیشت بہت زیادہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے یا اپنی برآمدات کو پھیلانے میں ناکام رہی تھی، اور اس کے برعکس ملک میں اعلیٰ متوسط طبقے کی تعداد میں بہت اضافہ دیکھنے میں آیا جو کہ حکومت کی غیر مثبت پالیسیوں کی وجہ پھل پھولنے میں کامیاب رہی۔ زیادہ تر وقت کے لیے، سری لنکا کی ترقی بین الاقوامی خودمختار بانڈز اور مہنگے قلیل مدتی بیرونی قرضوں کے ذریعے برقرار رہی۔ ان فنڈز کو تعلیم، بنیادی ڈھانچے اور صحت کی دیکھ بھال میں خرچ کیا گیا، اس کے علاوہ مالیاتی لیکویڈیٹی کو برقرار رکھنے اور بہتر میکرو اکنامک پالیسی کو فروغ دینے پر زور دیا گیا۔
تاہم، اپریل 2021 تک، سری لنکا کا بیرونی قرضہ 35 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ مارچ میں، افراط زر 17.5 فیصد تک بڑھ چکی تھی، جو 2015 کے بعد سب سے زیادہ ہے، اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر $1.9 بلین ہو گئے، جو صرف ایک ماہ کی درآمدات کے لیے کافی ہیں۔
سری لنکا کا غیر ملکی قرض اس کی جی ڈی پی کے تناسب سے خطرناک حد تک 120 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ 12 اپریل کو حکومت نے اپنے تمام بقایا غیر ملکی واجبات کو نادہندہ کردے دیا۔ رواں سال میں سری لنکا کو 4 ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے۔ گہری سیاسی اور اقتصادی تباہی کی وجہ سے خوراک اور ایندھن کی درآمد کے لیے سری لنکا کے پاس رقم نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں۔
اس سب کے باوجود ہندوستان پر کریڈٹ کے سلسلے کے ذریعے سری لنکا کی حمایت جاری رکھنے کے لیے دباؤ دیا جارہا ہے،
نیپال کی معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے
نیپال کے وزیر خزانہ جناردن شرما نے 16 اپریل کو بیرون ملک مقیم نیپالی شہریوں سے کہا کہ وہ ملکی بینکوں میں فنڈز جمع کرائیں تاکہ مالیاتی نظام میں لچک کو یقینی بنایا جا سکے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو محفوظ رکھا جا سکے۔ شرما کا کہنا تھا کہ دوسرے ملکوں میں مقیم نیپالیوں کو اپنی بچتیں نیپالی بینکوں میں جمع کرانی چاہئیں جس کے ذریعے نیپالی معیشت کو اور زیادہ مستحکم کیا جاسکے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ رونما ہوسکے۔
اگرچہ شرما نے کہا کہ نیپالی معیشت کو کسی بحران کا سامنا نہیں ہے اور نیپال کی صورت حال کا سری لنکا سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمالیائی مملکت کو دہائیوں میں اپنے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے اور حکومت مخالف مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نیپال میں، بیرون ملک مقیم کارکنوں کی ترسیلات زر، جو کہ معیشت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہیں، بیرونی ادائیگیوں کے لیے اہم ہیں، وہ جولائی کے وسط سے مارچ کے وسط کے درمیان 3 فیصد گر کر 5.3 بلین امریکی ڈالر پر آگئی، اس کے مقابلے میں اسی میں 5 فیصد اضافہ ہوا۔
پاکستان میں سیاسی انتشار نے ہندوستان کی وزارتِ خارجہ میں ہلچل مچا رکھی ہے، جبکہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتی ہے۔ ملک کے نئے وزیر اعظم، اپنے بڑے بھائی اور سابق وزیر اعظم کی طرح، بنیادی طور پر ایک کاروباری ہیں اور وہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دے کر تعلقات کو بچانے کی کوشش کر سکتے ہیں، جیسا کہ ان کے بھائی نے ماضی میں کوشش کی تھی۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تاجروں کا ایک بڑا حصہ ہندوستان کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات کو دوبارہ کھولنے کے حق میں ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستانی درآمد کنندگان، خاص طور پر کپاس، ٹیکسٹائل، دواسازی اور کیمیکلز اور خشک میوہ جات اور دستکاری کے برآمد کنندگان سرحد کو ایک بار پھر کھولنے کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو توقع ہے کہ اگر ایسا ہوا تو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سردمہری کے ماحول میں اور تناؤ میں کچھ کمی آسکتی ہے اور دونوں ملک باہمی طور پر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
درحقیقت آنے والا وقت ہندوستانی خارجہ پالیسی مرتب کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ صبر آزما ثابت ہوسکتا ہے۔اس کے علاوہ سری لنکا، نیپال، مالدیپ، بھوٹان سبھی ملک ہندوستان کی طرف ایک بڑے ہم سائے کے نظریے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس سے امید کرتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے گا۔ دوسری طرف ہندوستان کا غیر ملکی قرضہ اس وقت 139لاکھ کروڑ ہوچکا ہے جو کہ ایک بہت تشویش ناک بات ہے۔ اگرچہ مجموعی طور پر ہندوستانی معیشت بیرونی طاقتوں کے لیے لچکدار نظر آتی ہے، لیکن کچھ ہندوستانی ریاستوں کے لیے احتیاط کا ایک لفظ بھی ضروری ہے۔ ان میں سے کچھ ریاستوں میں عوام حمایتی پالیسیوں کی وجہ سے مالی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیادہ تر غیر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستیں، جیسے کہ پنجاب، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال اپنی معیشتوں کو تباہ کر سکتی ہیں، جو وہاں نافذ ہونے والی پاپولسٹ پالیسیوں کی وجہ سے دباؤ کا شکار ہیں۔