جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کورٹ(انجمن) کے اراکین نے ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کو چودہ مارچ دوہزار تئیس سے اگلے پانچ سال کی مدت کے لیے اتفاق رائے سے امیرِ جامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ منتخب کیا ہے۔آج کورٹ کی میٹنگ میں یہ اہم فیصلہ کیا گیا۔
ڈاکٹرسیدنا مفضل سیف الدین، ڈاکٹر نجمہ ہپت اللہ کے جانشیں ہوں گے جنھوں نے گزشتہ سال بطور امیر جامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اپنی میعاد مکمل کی ہے۔
ترپنویں الداعی المطلق ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین سال دوہزار چودہ سے عالمی پیمانے پر ایک ملین داؤدی بوہرا مسلم برادری کے سربراہ ہیں۔وہ ممتاز قائدو رہنما ہیں جنھوں نے قابل ستائش اور گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
ڈاکٹر سیدنا مفضل نے تعلیم،ماحولیات،سماجی ومعاشی پہلوؤں وغیرہ پر خصوصی توجہ کے ساتھ سماجی ترقی وبہبودکے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔
ڈاکٹر سیدنا مفضل کے سب سے قابل تعریف عالمی پروگراموں میں سیفی برہانی بہبود پروگرام، ٹرننگ دی ٹائڈ،پروجیکٹ رائز، بھوک کے خاتمے کی طرف ایف ایم بی کمیونی ٹی کیچن،خوراک کے نقصان میں تخفیف اور ماحولیات کا تحفظ وغیرہ شامل ہیں۔عالمی سطح پر ان کی پذیرائی ہوتی رہی ہے اور وہ سوسائٹی میں مثبت تعاون کی فراہمی کے ساتھ آئیڈیل شہری تیار کرنے اور امن و فرقہ ورانہ ہم آہنگی استوار کرنے کے لیے پابند عہدہیں۔
ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین کو متعدد انعامات و اکرامات سے نوازا جاچکا ہے۔انھیں پانچ سو بااثر مسلم شخصیات کی فہرست میں جگہ ملی ہے۔ امریکی پارلیامنٹ میں ان کی گراں قدر خدمات کا حوالہ دیا گیا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں ان کا ملک کے مقدس مہمان کے بطور استقبال کیا جاتاہے۔
ڈاکٹر سیدنا مفضل سیف الدین سورت کے تاریخی داؤدی بوہرا ایجوکیشنل انسٹی ٹیوٹ الجمعیت السیفیہ کے ممتاز فارغین میں سے ہیں۔وہ عالمی شہر ت یافتہ جامعہ الازہر اور قاہرہ یونیورسٹی،مصر سے بھی فارغ التحصیل ہیں۔انھوں نے دس فروری دوہزارتئیس کو ممبئی میں الجمعتیہ السیفیہ کے ایک نئے کیمپس کا افتتاح کیا ہے۔
ڈاکٹر سید نا مفضل بسیار نویس مصنف ہیں انھو ں نے گزشتہ پانچ سال سے انول ٹریٹائز تحریر کیے۔ عربی اور اردو زبانوں میں ان کی بصیرت افروز نظمیں بھی ہیں۔انھوں نے بوہرا کمیو نی ٹی کے مقامی ترجمان’لسان الدعوت‘میں بہترین ادبی مضامین اور نظمیں تحریر کیے ہیں۔ ملک کے اندرون میں اوردنیا بھر میں وہ انسانی ترقی وبہبود کا کام کرتے رہے ہیں۔انھوں نے یمن میں پائے دار زرعی نظام کومتعا رف کرانے کے ساتھ مقامی بنیادی ڈھانچے کے فروغ اور لڑکا اور لڑکی دونوں کو تعلیم تک مساوی رسائی فراہم کرائی ہے۔