پاکستان میں
باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی)کے ورکرز کنونشن میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد جاں بحق اور 150 سے زائد ہوگئے۔
جیو نیوز کے مطابق خار میں دھماکا ورکرز کنونشن کے اندر ہوا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
دھماکے میں 40 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے اور جاں بحق ہونے والوں میں جے یو آئی تحصیل خار کے امیر مولانا ضیاء اللہ جان اور تحصیل ناواگئی کے جنرل سیکرٹری حمیداللہ حقانی بھی شامل ہیں۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر نے بتایاکہ ڈی ایچ کیو اسپتال میں 40 سے زائد افراد کی لاشیں لائی گئیں۔
انہوں نے بتایاکہ دھماکے میں 150سےزائد زخمی ہوئے ہیں جبکہ شدید زخمیوں کو آرمی ہیلی کاپٹر سے پشاور منتقل کیا جا رہا ہے۔
زخمیوں کو تیمرگرہ اور پشاور بھی منتقل کیا جا رہا ہے اور کئی کی حالت تشویشناک ہے۔
دھماکے میں جیو نیوز کے کیمرہ مین سمیع اللہ بھی شدید زخمی ہیں۔ پولیس کے مطابق باجوڑ 35 سے زائد زخمی تیمرگرہ اسپتال منتقل کیا گیا۔
باجوڑ دھماکا خودکش قرار
انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس خیبرپختونخوا اختر حیات خان نے دھماکا خودکش قرار دیا اور کہاکہ باجوڑ دھماکا خود کش تھا۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے میں 10کلوگرام بارودی مواد استعمال کیا گیا، جائے وقوعہ سے بال بیئرنگ برآمد ہوئے ہیں۔
اس سے قبل ریجنل پولیس آفیسر مالاکنڈ ناصر ستی نے بھی بتایاکہ باجوڑ دھماکہ خودکش لگتا ہے، تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی اے پی پی کے مطابق جمعیت علمائے اسلام خیبرپختونخوا کے ترجمان عبدالجلیل جان نے بتایاکہ ورکرز کنونشن میں 4 بجے کے قریب مولانا لائق کی تقریرکے دوران دھماکا ہوا، انہوں نے بتایاکہ ایم این اے مولانا جمال الدین اور سینیٹر عبدالرشید بھی کنونشن میں موجود تھے جبکہ تحصیل خار کے امیرمولانا ضیا اللہ دھماکے میں جاں بحق ہو گئے۔
ایک عینی شاید نے ڈان نیوز کو بتایا کہ جلسہ گاہ میں کم ازکم 500 کرسیاں لگائی گئی تھیں جو مکمل طور پر بھر چکی تھیں اور بڑی تعداد میں لوگ کھڑے ہو کر بھی جے یو آئی(ف) کے قائدین کی تقاریر سن رہے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ جیسے ہی جے یو آئی(ف) کے عبدالشکور نامی عالم دین تقریر کے لیے آئے، ایک زوردار دھماکا ہو گیا، جب مجھے ہوش آیا تو ہر طرف لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
جس وقت دھماکا ہوا اس وقت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ورکرز کی بڑی تعداد کنونشن میں موجود تھی جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔