اس سال اچھی اور بہتر اجرتوں والی نوکریاں ڈھونڈنا مشکل ہو سکتا ہے

عندلیب اختر


روزگار سے متعلق حالات کے بارے میں اپنے تازہ ترین جائزے میں، جنیوا میں مقیم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے محنت نے خبردار کیاہے کہ عالمی معیشت کی غیر یقینی صورتحال کاروباری سرمایہ کاری کو افسردہ کر رہی ہے، حقیقی اجرتوں کو کم کر رہی ہے اور کارکنوں کو غیر رسمی ملازمت کی طرف دھکیل رہی ہے۔ ILOکے مطابق، موجودہ عالمی اقتصادی سست روی کا امکان ہے کہ زیادہ سے زیادہ کارکنوں کو کم معیار کی، کم تنخواہ والی ملازمتوں کو قبول کرنے پر مجبور کیا جائے گا جن میں ملازمت کی حفاظت اور سماجی تحفظ کا فقدان ہے، مجموعی طور پر، تنظیم نے پیش گوئی کی ہے کہ 2023 میں عالمی روزگار کی شرح 2022 میں دیکھی جانے والی حالت سے صرف نصف فیصد بڑھے گا۔ سست روی نہ صرف غربت کی سطح کو کم کرنے کی جانب مزید پیش رفت کو متاثر کرے گی، بلکہ معیار زندگی میں پچھلے اضافے کو بھی روک دے گی۔ عالمی کارکن جن کے لیے کم مواقع دستیاب ہوں گے۔
دنیا بھر میں متواتر معاشی بدحالی کے باعث اس سال اچھی اور بہتر اجرتوں والی نوکریاں ڈھونڈنا مشکل ہو سکتا ہے۔عالمی ادارہ محنت (آئی ایل او) کے مطابق 2023 میں عالمی سطح پر روزگار میں صرف ایک فیصد اضافہ ہو گا جو کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔دنیا بھر میں بیروزگار لوگوں کی تعداد میں بھی قدرے اضافے کی توقع ہے جو 208 ملین تک پہنچ جائے گی۔عالمگیر بیروزگاری اور سماجی امکانات کے رحجان سے متعلق آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق یہ بیروزگاری کی عالمگیر شرح کے مساوی ہے جو اس وقت 5.8 فیصد (یا ایک کروڑ ساٹھ لاکھ افراد) ہے۔
کم اجرت، کم اوقات کار
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ”اس وقت جاری معاشی گراوٹ کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے کارکنوں کو کم معیار والی نوکریاں قبول کرنا پڑیں گی جن کے عوض عموماً بہت کم اجرت ملتی ہے اور بعض اوقات بہت کم گھنٹوں کا کام میسر آتا ہے۔”یوکرین میں جاری جنگ اور تجارتی اشیا کی ترسیل کے عالمگیر نظام میں آنے والے متواتر خلل کے باعث یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پہلے ہی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ یہ دونوں خطے کووڈ۔19 بحران پر قابو پانے کے لیے اٹھائے جانے والے معاشی اقدامات کے اثرات سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہیں۔آئی ایل او کے تحقیقی شعبے کے ڈائریکٹر رچرڈ سیمینز نے کہا ہے کہ ”ہمارے اندازے کے مطابق 2022 میں جدید ممالک میں جتنی حقیقی اجرتوں کی پیش گوئی کی گئی ان میں 2.2 فیصد تک کمی آئی ہے اور یقیناً جدید ممالک کی ایک بڑی تعداد یورپ کا حصہ ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں حقیقی اجرتوں میں اضافہ ہوا ہے۔”
غیررسمی معیشت کا زوال
اتنا ہی تشویشناک یہ امکان ہے کہ دنیا کے دو ارب غیر رسمی کارکنوں کو سماجی تحفظ اور تربیت کے مواقع فراہم کرنے کے لیے باضابطہ روزگار کے شعبے میں شمولیت میں مدد دینے کی کوششیں ناکام رہیں گی۔انتظامی امور، حقوق اور مکالمے سے متعلق آئی ایل او کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر جنرل مینوئلا ٹومئے نے کہا ہے کہ ”2004 اور 2019 کے درمیان ہم نے دنیا بھر میں غیررسمی نوکریوں میں پانچ فیصد کمی کا مشاہدہ کیا تاہم قوی امکان ہے کہ آنے والے برسوں میں یہ پیش رفت پلٹ جائے گی۔”ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ ”خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں ملازمتوں کی بحالی ہے جہاں غیررسمی نوکریوں میں بڑا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔”
پائیدار ترقی کے اہداف کو خطرہ
آئی ایل او کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ قیمتیں اجرتوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ایسے میں رہن سہن کے اخراجات کا
بحران مزید لوگوں کو غربت میں دھکیل سکتا ہے۔ یہ رحجان کووڈ۔10 بحران کے دوران آمدنی میں ہونے والی نمایاں کمی کے علاوہ ہے جس نے بہت سے ممالک میں کم آمدنی والے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔آئی ایل او کی عہدیدار نے کہا کہ آج کل تقریباً 214 ملین کارکن انتہائی غربت کا شکار ہیں۔ باالفاظ دیگر یہ کارکن روزانہ 1.90 ڈالر کماتے ہیں۔ اگرچہ گزشتہ دہائیوں کے دوران غربت میں کمی لانے کے لیے نمایاں پیش رفت ہوئی ہے تاہم ‘ایسی بہت سی علامات’ کورونا وائرس اور اس وقت جاری معاشی بحران کے باعث منظر سے غائب ہو گئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ”اسی لیے 2030 تک ہر طرح کی غربت کے خاتمے کا انتہائی پُرعزم ہدف حاصل ہونے کا امکان کم ہے۔”
رپورٹ میں 2022 کے دوران دنیا بھر میں نوکریوں میں 473 ملین کمی کا اندازہ بھی لگایا گیا تھا۔یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں تقریباً 33 ملین زیادہ ہے اور یہ ان لوگوں کی تعداد ہے جو بیروزگار ہیں جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو روزگار کے متلاشی ہیں لیکن متحرک طور سے نوکری نہیں ڈھونڈ رہے جس کی وجہ نوکری نہ ملنے کے باعث ان کی حوصلہ شکنی یا اہل خانہ کی نگہداشت کی ذمہ داریاں نہ ہونا بھی ہو سکتی ہے۔
عالمی سطح پر نوکریوں میں اضافے کی غیرمساوی صورتحال بدستور تشویش کا باعث ہے۔افرادی قوت میں شمولیت، اجرتوں اور سماجی تحفظ کے حوالے سے سنگین صورت حال بدستور موجود ہیں۔ 290 ملین نوجوان نوکریوں، تعلیم یا تربیت سے محروم ہیں اور ان میں نوجوان خواتین کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ
عالمگیر معاشی امکانات کے بارے میں ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق آئندہ دو برس میں ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر معیشتوں کی نمو بری طرح متاثر ہو گی۔بڑھتی ہوئی مہنگائی اور شرح سود میں اضافے، سرمایہ کاری میں کمی اور یوکرین پر روس کے کھلے حملے کے نتیجے میں تجارتی سامان کی ترسیل کے نظام میں آنے والے خلل کے باعث 2024 تک دنیا بھر میں معاشی ترقی کی رفتار سست رہے گی۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ کوئی نئی ناموافق صورتحال عالمی معیشت کو مزید بحران سے دوچار کر سکتی ہے۔ اس میں مہنگائی کی توقع سے زیادہ شرح، اسے قابو میں رکھنے کے لیے شرح سود میں غیرہموار اضافہ، کووڈ،19 وبا کا دوبارہ ظہور یا بڑھتے ہوئے ارضی سیاسی تناؤ کا کردار بھی ہو سکتا ہے۔اس کے باوجود، ترقی یافتہ معیشتیں انتہائی بلند حکومتی قرضوں اور بڑھتی ہوئی شرح سود کے ساتھ عالمی سرمائے کو جذب کر رہی ہیں۔
غربت میں اضافے کا امکان
ابھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر معیشتوں میں فی کس آمدنی میں اضافے کی شرح متوقع طور پر 2.8 فیصد رہے گی جو 2010 سے 2019 کے درمیانی عرصے کی شرح سے پورا ایک فیصد کم ہے۔ذیلی صحارا افریقہ میں، جہاں دنیا کی انتہائی غریب آبادی کا 60 فیصد بستا ہے، 24-2023 میں فی کس آمدنی میں اضافہ اوسطاً 1.2 فیصد تک ہی رہنے کا امکان ہے اور یہ وہ شرح ہے جو غربت کی شرح میں کمی کے بجائے اس میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ ابھرتی ہوئی معیشتیں اور ترقی پذیر ممالک قرضوں کے بھاری بوجھ اور کاروبار میں کمزور سرمایہ کاری کے باعث کئی سال پر مشتمل سست رو ترقی کے دورانیے کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس سے تعلیم، صحت، غربت اور بنیادی ڈھانچے اور موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے درکار بڑھتے ہوئے اقدامات کے حوالے سے پہلے ہی خراب صورتحال مزید بگڑے گی۔AMN