عندلیب اختر
اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (UNCTAD انکٹاڈ) کی تازہ ترین رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کہ قرضوں میں جکڑے ترقی پذیر ممالک عالمی ترقی میں سست روی، بلند شرح سود اور سرمایہ کاری میں کمی کے باعث سالہا سال تک معاشی تکالیف کا سامنا کر سکتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک 800 بلین ڈالر کی متوقع آمدنی کا سامنا کر رہے ہیں اور قرضوں کی بے مثال سطح سے لڑ رہے ہیں۔
ان ملکوں کو مہنگائی خاص طور پر غذائی اجناس کی بڑھی ہوئی قیمتیں بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔انکٹاڈ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ متوقع طور پر 2023 میں عالمی معیشت کے بڑے حصوں میں سالانہ ترقی کی شرح وباء سے پہلے کی سطح سے کم رہے گی۔بلند شرح سود اور بڑھتے ہوئے قرضے آنے والے برسوں میں ترقی پذیر ممالک پر ”تباہ کن” اثرات مرتب کریں گے جن کی مالیت کم از کم 800 بلین ڈالر ہو گی۔اقوام متحدہ کے ادارے کا کہنا ہے کہ اس سے ”روزمرہ کے اخراجات کا بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا جس کا ان ممالک کے لوگوں کو اس وقت سامنا ہے اور دنیا بھر میں عدم مساوات بڑھ جائے گی۔”
قرضوں کا بوجھ اور سست رو ترقی
انکٹاڈ کے مطابق شرح سود میں اضافے سے آنے والے برسوں میں ترقی پذیر ممالک کی آمدنی سے 800 بلین ڈالر قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں منہا ہو جائیں گے اور یہ ادائیگی سرمایہ کاری اور ترقیاتی اخراجات کی قیمت پر ہوتی ہے۔2022 میں 68 ترقی پذیر منڈیوں میں قرض کی قیمت میں 5.3 فیصد سے لے کر 8.5 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ دہائی میں ادا کیے گئے قرض کی مالیت ضروری خدمات کی فراہمی سے متعلق ترقیاقی اخراجات سے زیادہ رہی اور اس عرصہ میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی پر صحت عامہ کے اخراجات سے زیادہ رقم صرف کرنے والے ممالک کی تعداد 34 سے بڑھ کر 62 تک جا پہنچی۔گزشتہ برس اقوام متحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل امینہ محمد نے اس صورتحال کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے اسے ”قرض اور لوگوں پر سرمایہ کاری کے مابین تجارت” قرار دیا تھا۔
قرض دار ممالک قرضے چکانے کے لیے جو رقم ادا کرتے ہیں وہ وصول ہونے والے نئے قرضوں کی مالیت سے زیادہ ہوتی ہے اسی لیے ترقی پذیر ممالک میں ترقیاتی اخراجات میں کمی کا سلسلہ برقرار رہے گا۔ ‘یو این سی ٹی اے ڈی’ کے مطابق 2022 میں ایسے ممالک کی تعداد 39 تھی اور اس صورتحال کے ان کی ترقی، سماجی تحفظ اور عدم مساوات کے خلاف وسیع تر جدوجہد پر ممکنہ طور سے تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
سرمائے کی قلت
دریں اثنا ترقی پذیر معیشتوں کے لیے بین الاقوامی سرمایے میں کمی آ رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 81 ترقی پذیر ممالک (چین کے علاوہ) نے 2022 میں بین الاقوامی سرمایے کی مد میں 241 بلین ڈالر کھوئے اور اس میں ہر ملک کا اوسط حصہ سات فیصد ہے۔
انکٹاڈ نے کہا ہے کہ 20 سے زیادہ ممالک کو 10 فیصد سے زیادہ نقصان ہوا اور ”متعدد ایسے تھے جو سرمایے کے حصول کے لیے حال ہی میں ملنے والے خصوصی حقوق بھی ختم کر بیٹھے۔”سرمایہ نکلوانے کے خصوصی حقوق (ایس ڈی آر) عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا بنایا عالمی سرمایے کا اثاثہ ہے جو اس کے رکن ممالک کے زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر کا متبادل ہوتا ہے اور انہیں ضرورت کے وقت سرمایے کی فراہمی میں مدد دیتا ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اب تک سب سے بڑی مقدار میں ایس ڈی آر اگست 2021 میں فراہم کیے گئے تھے جس کا مقصد کووڈ۔19 کی وجہ سے معاشی بحران کا سامنا کرنے والے ممالک کی مدد کرنا تھا۔سرمائیکی کمی کے باعث انکٹاڈ نے خبردار کیا ہے کہ 37 ممالک میں رہنے والے 500 ملین لوگ ممکنہ طور پر ترقی پذیر دنیا کو پہنچنے والے معاشی جھٹکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار حجم اور رفتار پر مبنی اقدامات میں عالمی مالیاتی نظام کی ناکامی کے نتائج سے آنے والے کئی سال تک متاثر ہوتے رہیں گے۔
رہن سہن کے اخراجات کا بحران
رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ 2023 کے ابتدائی مہینوں کے دوران ترقی پذیر ممالک میں غذائی اشیا کی مہنگائی رہی جس سے رہن سہن کے اخراجات بہت زیادہ بڑھ گئے۔یہ بات اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے تازہ ترین جائزے کی تصدیق کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2023 تک متواتر 12 مہینے کمی کے بعد آج خوراک کی قیمتیں 2020 کی اوسط سطح کے مقابلے میں 30 فیصد بلند ہیں جبکہ کم اور متوسط آمدنی والے بہت سے ممالک میں خوراک دس گنا سے زیادہ مہنگی ہو گئی ہے۔’ایف اے او ‘کے چیف اکانومسٹ میکسیمو ٹوریرو کے مطابق، خوراک کی بلند قیمتوں نے غذائی تحفظ کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں خام غذائی اجزا برآمد کرنے والے ممالک میں امریکی ڈالر اور یورو کے مقابلے میں کرنسیوں کی قدر میں کمی اور قرضوں کے بوجھ کے سبب یہ صورتحال اور بھی مخدوش ہو گئی ہے۔انکٹاڈ نے مزید خبردار کیا ہے کہ بلند شرح سود اور خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو اخراجات اور کاروباری سرمایہ کاری کو نقصان ہوتا رہے گا۔
قرض کے ڈھانچے میں اصلاحات
‘یو این سی ٹی اے ڈی’ نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی ضروریات سے مناسب طور سے نمٹں ے کے لیے قرض کے عالمگیر ڈھانچے میں اصلاحات پر ”فوری توجہ” دینے کی ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے تجارتی ادارے نے اس حوالے سے جو سفارشات پیش کی ہیں ان میں ”قرض کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کثیرفریقی طریقہ کار” وضع کرنا، قرض دہندگان اور قرض خواہ ممالک کے مابین قرضے کے لین دین سے متعلق قانونی اندراج کا نظام بنانا اور قرضوں کے استحکام سے متعلق بہتر تجزیہ بھی شامل ہیں جس کے تحت ترقی اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے درکار مالیاتی ضروریات مدنظر رکھی جائیں۔مال برداری کی کمپنیاں اپنے کاروبار کو ترقی کے پائیدار اہداف کے مطابق کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
ترقیاتی مالیات کا استحکام
یہ سفارشات رواں سال کے آغاز میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے کا اعادہ کرتی ہیں جس میں انہوں نے قرض کی بھاری قیمت کے خلاف اقدامات کرنے اور ترقی کے لیے طویل مدتی مالیاتی مدد میں اضافے کے لیے کہا تھا۔
انتونیو گوتیرش نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے مابین ”بہت بڑے مالیاتی فرق” کو پاٹنے اور 2030 تک پائیدار ترقی کے اہداف (ایس ڈی جی) کے حصول میں مدد دینے کے لیے ایک سالانہ محرکی پیکیج جاری کرنے کی تجویز دی تھی۔”ایس ڈی جی کا محرک” نامی اس تجویز میں ضرورت مند ممالک کو ناگہانی حالات میں دی جانے والی مالی مدد بڑھانے اور بحران کے وقت سرمایے کے حصول کے خصوصی حقوق کے مزید خودکار انداز میں اجرا کے لیے بھی کہا گیا ہے۔(اے ایم این)