خدا بخش لائبریری میں ہندستانی جرنلزم پر پروفیسر شاہین نظر کا خطاب

اے ایم این۔ پٹنہ


’ہندستانی صحافت: اردو، ہندی اور انگریزی اخبارات کا ایک تقابلی مطالعہ‘ کے موضوع پرمورخہ ۵/ فروری ۰۲۰۲ء کو خدابخش لائبریری میں ایک لکچر کا انعقاد کیا گیا۔ پروفیسر شاہین نظر،شاردا یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اور انڈیا ٹوڈے میڈیا انسٹی ٹیوٹ، نوئیڈا کو اس کے لئے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ لکچر کا افتتاح کرتے ہوئے ڈاکٹر شائستہ بیدار، ڈائرکٹر، خدا بخش لائبریری نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں اس لائبریری میں پروفیسر شاہین نظر کا استقبال کرتی ہوں اور ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انھوں نے میری گزارش کو قبول کرتے ہوئے اس اہم موضوع پر لکچر دینے کے لئے اپنا قیمتی وقت نکالا۔ آپ گزشتہ ۰۴/ برسوں سے میڈیا سے جڑے ہوئے ہیں اور اس دوران انھوں نے صحافتی میدان میں کافی کام کئے ہیں۔ ٹائمس آف انڈیا،پٹنہ،خلیج ٹائمس،دبئی،سعودی گزٹ، جدہ اور شاردا یونیورسٹی،نوئیڈا میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔آج کل انڈیا ٹوڈے میڈیا انسٹی ٹیوٹ،نوئیڈا سے وابستہ ہونے کے ساتھ وہ e-papersکے بھی important contributorsمیں سے ہیں اور The Wire اور دوسرے leading e-journalsسے جڑے ہوئے ہیں۔
یہ موضوع اس لئے بھی اہم ہے کہ آج جعلی اور خود ساختہ خبروں کا جو جال پھیلا ہوا ہے، اس مکر جال سے ایک عام قاری اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے، اس کی جانکاری ہم سب کے لئے بہت ضروری ہے۔ خاص طور سے نوجوان نسل جو اپنی زندگی کے شروعاتی پڑاؤ میں ہیں، اپنے ذہن و دماغ کو کیسے معتدل اور متوازن کر سکتی ہی۔ اس کی ذہنی اور علمی آبیاری بہت ضروری ہے۔صحافت ایسا پروفیشن ہے جس میں رہ کر سماج اور دیش کی سیوا کی جاسکتی ہے بالکل اسی طرح جیسے اور دوسرے قومی خدمت کے پروفیشن میں، یہاں بھی ایمان داری اور سچ کی بات کرنی ہوگی۔صحافت اب Professionہے جس میں رہ کر دیش کی سیوا کی جاسکتی ہے۔ایمان داری اور dedication کی ضرورت ہے۔جو مسئلہ جیسا ہے اس کو اسی طرح ایمان داری سے Publicکے سامنے پیش کرنا صحافی کا فرض ہے۔


پروفیسر شاہین نظر نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ہندستانی جرنلزم نے وقت کے تقاضہ کے مطابق اپنے آپ میں تبدیلی لانے کی کوشش کی۔ ۰۸۹۱ء کے دور میں جرنلزم کا اتنا پھیلاؤ نہیں تھا، جتنا آج ہے، بہار جیسے پردیش میں اس وقت جرنلزم کا ایک بھی ادارہ نہیں تھا۔ لیکن آج اس کے ادارے ہر جگہ مل جائیں گے۔ صحافت کا انداز وقت کے تقاضے کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ سرسید کے دور میں صحافت کا اصلاحی انداز تھا۔ انگریزوں کے دور میں اس کا مزاج تبدیل ہوا اور یہ صحافت کے لئے چیلنج کا دور رہا۔ ایمرجنسی کے بعد نیوز کا دائرہ بڑھا اور طرح طرح کے اخبارات اور میگزین نکلنے شروع ہوئے۔ آزادی کے بعد پھر اس میں بدلاؤ ہوا اور سماجی سروکار سے متعلق معلومات فراہم کی جانے لگیں۔ ۰۹۹۱ء کے بعد صحافت میں دو بڑی تبدیلیاں آئیں۔ پہلا بدلاؤ یہ ہوا کہ پرائیوٹ ٹی وی کا دور شروع ہوا۔ دوسرا بدلاؤ یہ ہوا کہ ورناکولر صحافت کا پھیلاؤ ہوا۔ انگریزی کے علاوہ دوسری ہندستانی زبانوں میں اس کے قدم جمنے لگے۔


پروفیسر موصوف نے فرمایا کہ ایک زمانہ تھا کہ ٹائمس آف انڈیا ہندستان کا اول درجہ کا اخبار ہوا کرتا تھا۔ لیکن وقت کے بدلاؤ کی وجہ سے آج یہ گیارہویں نمبر پر آتا ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کا سرکولیشن کم ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہندی اخبارات نے اپنا قدم مضبوطی سے جما دیا۔ آج ایک سے پانچ میں ہندی اخبارات آتے ہیں۔
آپ نے یہ بھی فرمایا کہ انٹر نیٹ کی وجہ سے دنیا میں نیوز پیپر کی ریڈرشپ کم ہوتی جارہی ہے۔ لیکن ہندستان میں اس کے برعکس اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن سب سے حیرت کی بات ہے کہ آج بھی بیرون ممالک خاص طور پر بی بی سی پر زیادہ اعتبار کیا جا رہا ہے۔ یہ ہندستانی میڈیا کے لئے اچھے اشارات نہیں ہیں۔Mainstream Media اپنی ساکھ کو قائم رکھنے میں ناکام ہورہا ہے۔ اس لئےAlternative Mediaاور ڈیجیٹل میڈیا اپنا پاؤں پھیلاتا جا رہا ہے۔ چونکہ پہلے ایڈیٹر کو آزادی حاصل تھی اور اخبار کے مالک کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں تھا، اس لئے اس زمانے کے اخبارات آج بھی وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ لیکن آج ایڈیٹر آزاد نہیں ہے، وہ دباؤ میں کام کر رہا ہے، اس لئے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل رہے ہیں۔ لیکن جب ایک راستہ بند ہوتا ہے تو دوسرے راستے کھل جاتے ہیں۔ اور یہ دوسرا راستہ Alternative Mediaاور ڈیجیٹل میڈیا ہے۔ مجاہدین آزادی میں سے بیشتر صحافت سے جڑے ہوئے تھے۔ کیونکہ جب ان کی باتوں اور ان کے مطالبات کو اخبارات نے چھاپنا بند کردیا تو ان لوگوں نے خود اپنا راستہ کھول لیا۔
چونکہ آج کے لکچر کا موضوع بڑا دلچسپ اور وقت کے تقاضے کے مطابق تھا،

اس لئے اس پر متعدد سوالات بھی پوچھے گئے، جن کا تشفی بخش جواب پروفیسر موصوف نے دیا۔ اس کے علاوہ ریاض عظیم آبادی صاحب، سرور احمدصاحب اور نووندو شرما صاحب جیسے مشہور صحافیوں نے بھی اپنے خیالات کو سامعین کے سامنے رکھا۔ اور بہت کامیابی کے ساتھ یہ لکچر اپنے اختتام کو پہنچا۔