نئی دہلی
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام یک روزہ ریسرچ اسکالر،طلبا سمینار کا انعقاد کیا گیا۔اس سمینار میں شعبۂ اردوکے اسکالرز اور طلبا و طالبات نے مقالات پیش کیے۔ صدارتی خطاب میں صدر شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے دلی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسکالر اور طلبہ و طالبات نے اچھے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر احمد محٖفوظ نے مزید کہا کہ اس طرح کے سمینار کا مقصد طلبا کی تربیت ہے ۔
انہوں نے تحقیق و تنقید کے بعض اہم نکات کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ کسی بھی موضوع پر لکھنے سے قبل اس کی بنیادی کتابوں کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے۔انھوں نے اصل متن کی قرأت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ طلبا کا مطالعہ عموما محدود ہوتا ہے، اس لیے اصل متن کو نہ صرف پڑھیں بلکہ اس پر تنقیدی نگاہ بھی رکھیں۔سمینار کے کنوینر اور صدر اجلاس پروفیسر کوثر مظہری نے طلباکی ہمت افزائی کی اور کہا کہ اس طرح کے سمینار کا مقصد طلبا کی پوشیدہ ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی تربیت بھی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ریسرچ اسکالر اور طلبا کو اس کی بھی ہدایت کی کہ ریسرچ کے دوران انھیں اپنے خیالات میں معروضیت پیدا کرنی چاہیے۔ انھوں نے طلبا کی کار کردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ناقد کا کام فیصلے صادر کرنا نہیں بلکہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے، اس لیے طلبا کوچاہیے کہ تنقیدی تحروں کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے اندر تنقیدی شعور پیدا کریں۔
اس سمینار کا امتیازی پہلو یہ تھا کہ اس میں موضوعات متعین کردیے گئے تھے ۔ پی ایچ ڈی اسکالر کے لیے’’ آل احمد سرور بحیثیت نقاد اور اختر حسین رائے پوری۔ ایم اے کے طلبا کے لیے وارث علوی کی کتاب ’حالی ، مقدمہ اور ہم : ایک جائزہ اور بی اے کے لیے’ راجندر سنگھ بیدی کا ناولٹ’ ایک چادر میلی سی کا جائزہ ‘ کے موضوعات طے کیے گئے تھے۔دوسرا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس سمینار میں طلب کی جانب سے بحث و مباحثہ کی صحت مند فضا نے سمینار کی معنویت میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔یہ سمینار دو اجلاس پر مشتمل تھا۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم اور پروفیسر خالد جاوید نے کی۔اپنے صدارتی تقریر میں پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ اس طرح کے سمینار کا مقصد طلبا کو مقالات لکھنے کے ہنر سے آراستہ کرنا ہے۔انھوں نے اسکالر کو یہ مشورہ دیا کہ مقالہ تحریر کرتے ہوئے کسی موضوع پر اجمالی گفتگو کرنے کے بجائے کسی ایک گوشے کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ گفتگو بامعنی اور مرکوز ہوسکے۔ انھوں نے طلبا کو ہدایت دیتے ہوئے زور دیا کہ اپنی بات کو مدلل پیش کریں۔ پروفیسر خالد جاوید نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ سمینار لفظ کا پہلی مرتبہ استعمال سقراط نے کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ سمینار کا اصل مقصد ڈبیٹ ہے، اس لیے بغیر سوال و جواب کے سمینار کی صورت ون وے ٹریفک جیسی ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقالہ تحریر کرتے ہوئے اپنی تنقیدی بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے کوئی نئی بات کہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سمینار کے پہلے اجلاس میں چھ مقالات پیش کیے گئے۔ جن میں سید تجمل حسین(بی اے سال آخر)، امتیاز احمد(ایم اے)وسیمہ اختر(ریسرچ اسکالر) درخشاں(ریسرچ اسکالر) صالحہ عاصم(ریسرچ اسکالر) محمد شہنواز خان(ریسرچ اسکالر) نے اپنے مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس میں پانچ مقالات پیش کیے گئے جن میں شفق رضیہ،(ریسرچ اسکالر) فیضان احمد کیفی (ریسرچ اسکالر) عذرا انجم (ریسرچ اسکالر) عظمت النسا (ریسرچ اسکالر) اور محمد ناظم (ریسرچ اسکالر) نے اپنے مقالات پیش کیے ۔ پہلے اجلاس میںپروفیسر عمران احمد عندلیب اور دوسرے اجلاس میں ڈ اکٹر محمد مقیم نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ پہلے اور دوسرے اجلاس کی نظامت شعبے کے ریسرچ اسکالر یوسف رضا اور سمیں فلک نے بحسن و خوبی انجام دیے ۔ سمینار کا آغاز شعبے کے طالب علم سعدان کی تلاوت سے ہوا۔
اس موقعے پر پروفیسر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر نوشاد منظر،ڈاکٹر غزالہ فاطمہ اور ڈاکٹر خوشتر زریں ملک کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالر اور طلبا و طالبات موجود تھے۔