برطانوی ماہرین نے بتایا ہے کہ خواتین کو متاثر کرنے والی سروائیکل کینسر سے تحفظ کی ویکسین کے نتائج حوصلہ کن آئے ہیں، جس میں ویکسینیشن سے خواتین میں موضی مرض میں مبتلا ہونے کے امکانات 90 فیصد تک کم ہوجاتے ہیں۔طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق برطانوی ریاست انگلینڈ میں 2006 سے 2020 کے درمیان مختلف مواقع پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہیومن پپلوما وائرس (ایچ پی وی) (human papillomavirus) سے تحفظ کی ویکسین سے کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات نمایاں طور پر کم ہوجاتے ہیں۔
ماہرین نے تحقیق کے دوران 20 سے 64 سال کی عمر کی لاکھوں خواتین کو ایچ پی وی سے تحفظ کی ویکسین لگائیں اور پھر ان کا فالو اپ لیتے رہے۔تحقیق میں ہزاروں خواتین ایسی بھی شامل تھیں جن میں سروائیکل یا سرویکس کینسر کی تشخیص ہو چکی تھی۔ماہرین نے تمام خواتین کو مختلف مراحل میں ویکسین دیں اور پھر ان کے فالو اپس میں ان کی صحت کا جائزہ لیا۔ماہرین نے پایا کہ ایچ پی وی سے تحفظ کی ویکسینز نے تقریبا تمام خواتین کو فائدہ دیا، یہاں تک کینسر میں مبتلا خواتین کو بھی ویکسین سے فائدہ ملا اور ان میں بیماری کی رفتار سست ہوگئی۔ماہرین کے مطابق جن خواتین اور لڑکیوں کو ویکسینیشن کا حصہ بنایا گیا، ان میں ایسی خواتین بھی شامل تھیں جن میں ایچ پی وی وائرس کی وجہ سے دوسری بیماریاں بھی تھیں۔
ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ ایچ پی وی سے تحفظ کی ویکسین نے تمام خواتین کو فائدہ پہنچایا، البتہ ویکسینز نے سب سے زیادہ نو عمر لڑکیوں کو پہنچایا اور وہ تحقیق کے دوران بیماری کا شکار نہ ہوئیں۔ماہرین کے مطابق اگر ایچ پی وی سے تحفظ کی ویکسینز کو 13 سال کی عمر کے بعد لڑکیوں کو لگانا شروع کیا جائے تو اس کے نتائج اچھے نکل سکتے ہیں اور ویکسینیشن کا حصہ رہنے والی لڑکیوں میں کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات 90 فیصد تک ہوجاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ویکسین کینسر میں مبتلا خواتین کو صحت یاب نہیں بناتی لیکن ان میں بیماری کی رفتار کو سست کرتی ہے، تاہم ویکسین سے ایسی خواتین مستقبل میں محفوظ بن سکتی ہیں، جن میں کینسر میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔خیال رہے کہ سروائیکل یا سرویکس کینسر ہونے کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، تاہم خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بیماری عام طور پر ہیومن پپلوما وائرس (ایچ پی وی) سے ہوتی ہے جو کہ مرد اور خاتون کے درمیان جنسی تعلق سے ہونے والا جنسی وائرس ہے۔سروائیکل کینسر کی عام علامات میں جنسی تعلق کے درمیان خاتون کو درد اور بعض مرتبہ شدید درد کی شکایات کے علاوہ ایک ماہواری کے اختتام کے بعد دوسری ماہواری شروع ہونے سے قبل غیر معمولی خون کا اخراج شامل ہیں۔اندام نہانی سے خراب مادے، پانی اور خون کا اخراج بھی اس کی ابتدائی علامات میں شامل ہے جب کہ خاتون کو جنسی عمل کے بعد کمر اور جسم کے نچلے حصے میں درد کی شکایت رہنا بھی شامل ہے۔ تاہم مذکورہ تمام علامات دیگر مسائل اور پیچیدگیوں کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہیں لیکن ایسی علامات کے بعد خاتون کو گائناکالوجسٹ (ماہر امراض نسواں) کے پاس جانا چاہئیے۔
۲
فیس بک اور انسٹاگرام پر اے آئی مواد
فیس بک، انسٹاگرام اور تھریڈز جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مالک کمپنی میٹا نے آئندہ ماہ مئی سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹولز کے ذریعے تیار کیے جانے والے مواد پر لیبل لگانے کا اعلان کردیا۔علاوہ ازیں میٹا اپنے تینوں پلیٹ فارمز پر ایڈٹ شدہ تصاویر اور ویڈیوز پر بھی لیبل لگائے گا، جس سے دیکھنے والوں کو آسانی ہوگی کہ مذکورہ مواد اے آئی ہے یا پھر وہ ایڈٹ شدہ ہے۔میٹا نے بلاگ پوسٹ میں بتایا کہ سیفٹی پالیسی کو تبدیل اور بہتر کرتے ہوئے آئندہ ماہ مئی سے ہر طرح کی اے آئی تصاویر اور ویڈیوز پر لیبل لگایا جائے گا کہ وہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار شدہ ہیں۔-اسی طرح ایڈٹ شدہ یا غلط معلومات پر مبنی ویڈیوز اور تصاویر پر بھی لیبل لگایا جائے گا۔میٹا کے مطابق لیبل لگانے کا فیچر فیس بک، انسٹاگرام اور تھریڈز پر پیش کیا جائے گا اور اے آئی کی مدد سے تیار ویڈیوز اور تصاویر کو شناخت کے بعد ان پر لیبل لگایا جائے گا۔کمپنی کے مطابق صارفین خود بھی اے آئی ٹولز کی مدد سے
تیار کردہ ویڈیوز اور تصاویر پر لیبل لگا سکیں گے جب کہ دوسرے صارفین کی نشاندہی پر بھی کمپنی لیبل لگائے گی۔میٹا نے بتایا کہ کمپنی کا اے آئی سسٹم ایسی تصاویر اور ویڈیوز کو اپ لوڈ ہونے کچھ عرصے بعد لیبل سے لیس کرے گا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت میٹا کے تمام پلیٹ فارمز سمیت انٹرنیٹ پر بہت سارا مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار وائرل ہو رہا ہے اور تمام کمپنیاں ایسے ٹولز بھی پیش کر رہی ہیں، جن کی مدد سے اے آئی مواد تیار کیا جا سکتا ہے۔فیس بک نے بھی متعدد ایسے ٹولز پیش کر رکھے ہیں، جن کی مدد سے مواد کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اے آئی مواد کے پھیلاو کے بعد بہت سارے افراد تذبذب کا بھی شکار ہیں، وہ حقیقی اور اے آئی ٹولز کے ذریعے تیار کردہ مواد میں فرق نہیں کر پاتے۔