عندلیب اختر
ہندوستان میں زراعت کاشعبہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔یہاں کی دیہی معیشت اور زراعت اتنی طاقت رکھتی ہے کہ ملک بہ آسانی ناگفتہ بہ صورتحال سے نمٹ سکتا ہے۔ہمارے زراعت کے شعبے نے ہی کووڈ وبا کے دوران اس کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ سے حکومت ہند نے ملک کے کروڑوں لوگوں کو خوراک کی ضمانت مہیا کی ہے اور اسی طرح دوست ممالک کی مدد بھی کی۔آج ہم زیادہ تر زراعتی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پہلے یا دوسرے مقام پر ہیں۔ ہندوستان کی غذائی اجناس کی پیداوار میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ملک گندم، چاول، دالیں، گنا اور کپاس جیسی فصلوں کے اہم پیدا کنندگان میں سے ایک ہے۔ یہ دودھ کی پیداوار میں پہلے اور پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔ 2013 میں، ہندوستان نے دالوں کی پیداوار میں 25 فیصد حصہ ڈالا، جو کسی ایک ملک کے لیے سب سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ چاول کی پیداوار میں ہندوستان کا حصہ 22% اور گندم کی پیداوار میں 13% تھا۔ ہندوستان کا حصہ کپاس کی کل پیداوار کا 25% ہے اور ساتھ ہی ساتھ پچھلے کئی سالوں سے کپاس کا دوسرا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔
ان سب کے باوجود زراعت کے شعبے کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔بہت سے عوامل ہیں جو زرعی پیداوار کو متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ کاشت کی گئی زمین کا حجم کم ہو رہا ہے اور کسان اب بھی زیادہ تر مانسون پر منحصر ہیں۔ آبپاشی کی خاطر خواہ سہولت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ کھادوں کا غیر متوازن استعمال بھی کیا جا رہا ہے جس سے زمین کی زرخیزی کم ہو جاتی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں جدید ٹیکنالوجی ہر کسی کے لیے دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی زراعت کے لیے رسمی سطح پر قرضہ ہے۔ سرکاری اداروں کی جانب سے اناج کی مکمل خریداری نہیں کی جاتی ہے اور کسانوں کو مناسب قیمت نہیں ملتی ہے۔
اس سلسلے میں کمیٹیوں اور ماہرین کے اداروں کی جانب سے گزشتہ کئی سالوں سے بہت سی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں، جیسے کہ زرعی اراضی کو لیز پر دینے کے لیے قانون بنانا، پانی کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے کے لیے مائیکرو اریگیشن تکنیک اپنانا، پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کر کے اچھے معیار تک رسائی کو بہتر بنانا۔ بیجوں کے لیے اور زرعی مصنوعات کی آن لائن تجارت کے لیے ایک قومی زرعی مارکیٹ کا آغاز کرنا۔
زرعی پیداوار کا انحصار بھی بہت سے عوامل پر ہوتا ہے۔ ان میں زرعی ضروریات کی دستیابی اور معیار جیسے زمین، پانی، بیج اور کھاد، زرعی قرضے اور فصلوں کی بیمہ کی سہولیات، زرعی پیداوار کے لیے منافع بخش قیمتوں کی یقین دہانی، اور اسٹوریج اور مارکیٹنگ کا بنیادی ڈھانچہ شامل ہے۔ یہ رپورٹ ہندوستان میں زراعت کی حالت کی تفصیلات پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، زراعت پیداوار اور فصل کے بعد کی سرگرمیوں سے متعلق عوامل پر تبادلہ خیال کرتی ہے۔
2009-10 تک، ملک کی نصف سے زیادہ افرادی قوت (53%) یعنی 243 ملین افراد زراعت سے وابستہ تھے۔ زمین کا ٹکڑا، اور کھیت مزدور جو ان کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران زرعی پیداوار غیر مستحکم رہی ہے، جس میں 2010-11 میں 8.6%، 2014-15 میں -0.2% اور 2015-16 میں 0.8% سالانہ نمو کے ساتھ۔[2] شکل 3 میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران زرعی شعبہ بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کیا۔
آج زراعت کے ذریعہ سامنا کئے جانے و الے چیلنجوں پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔تمام مساعد کے باوجود زراعت کے تحت علاقہ اور اس کا فائدہ اور نقصان بہت زیادہ قدرت پر منحصر ہے۔زراعت کے تئیں لوگوں کی جستجو اور تعلق بڑھنا چاہئے۔ اگلی نسل کے لئے زراعت پُرکشش ہونی چاہئے اور کسانوں کو زراعت کے لئے بحال رکھنا چاہئے۔ ا س جانب اور زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔
زراعت اورکسانوں کی فلاح وبہبود کے مرکزی وزیر جناب نریندر سنگھ تومر نے گزشتہ دنوں نئی دلی میں ایسوسی ایٹیڈ چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا (ایسوچیم) کے ذریعہ منعقدہ“ انٹگریشن آف امپرووڈ سیڈس اینڈ ایگری اِن پُٹس ”کے موضوع پر زراعتی پیداوار بڑھانے سے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جتنا مضبوط اورفائدہ بخش زراعت کا شعبہ ہوگا، اتنا ہی ملک مضبوط ہوگا۔آج زراعت کے ذریعہ سامنا کئے جانے و الے چیلنجوں پر غوروفکر کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کے تمام مساعد کے باوجود زراعت کے تحت علاقہ اور اس کا فائدہ اور نقصان بہت زیادہ قدرت پر منحصر ہے۔زراعت کے تئیں لوگوں کی جستجو اور تعلق بڑھنا چاہئے۔ جناب تو مر نے کہا کہ کسانوں اور منڈی کے درمیان فاصلے کو کم کرنے، دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ مہیا کرنے اور بچولیوں کے رول کو ختم کرنے کے لئے حکومت کام کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں چھوٹے کسانوں کی تعداد زیادہ ہے، جن کے پا س چھوٹا رقبہ ہے اور سرمایہ کاری کے لئے ان کے پاس پیسہ نہیں ہے۔اس طرح کے کسانوں کے لئے مرکزی حکومت دس ہزار نئے ایف پی اوز قائم کررہی ہے، جس کے لئے 6865 کروڑروپے کی گنجائش پید ا کی گئی ہے اور چھوٹے کسانوں کو متحریک کیا جا رہا ہے۔ یہ حکومت کی کوشش ہے کہ کسان اجتماعی زراعت کریں تاکہ لاگت میں کمی آئے، پیداوار کے معیار میں بہتری آئے اور چھوٹے کسان پیسہ ادا کرنے والی فصلوں کی طرف منتقل ہوسکیں اور اپنی شرائط پر اپنی پیداوار کی قیمت وصول کرسکیں۔ ایف پی اوز بھی پیداوار کو پراسس کرسکتے ہیں۔اس مقصد کے لئے حکومت نے دو کروڑروپے تک کا قرض بغیر ضمانت کے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
جناب تومر نے کہا کہ آئل سیڈ میں برآمد کے انحصار کوکم کرنے کے لئے آئل پام مشن 11 ہزار کروڑروپے کی گنجائش کے ساتھ شروع کیا گیا ہے۔ ملک میں 28 لاکھ ہیکٹئر زمین آئل پام کی زراعت کے لئے مناسب ہے۔شمال مشرق میں ا سکے امکانات زیادہ ہیں۔ ایگری انفرافنڈ سے متعلق ایک لاکھ کروڑ وپے کی گنجائش گاؤوں میں بنیادی ڈھانچہ کی تخلیق کے لئے رکھی گئی ہے۔مویشی پروری، ماہی پروری اور طبی فوائد سے متعلق زراعت کے لئے خصوصی پیکجز کے لئے بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔ واضح ہو کہ حکومت ہند ڈجیٹل ایگری کلچر مشن پر بھی کام کررہی ہے، جس میں کسان، بینکس اور دوسرے ادارے مربوط کئے جائیں گے، فصلوں کا اندازہ لگایا جائے گا اور ڈاٹا جمع کیا جائے گا اور ٹکنالوجی کی مددسے فصلوں کے نقصانات کا اندازہ بھی لگایا جائے گا۔میپنگ اس طرح سے کی جائے گی کہ پورے ملک کے کسانوں کو ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مشورہ دیا جاسکے کہ کہاں اور کس طرح کی کھپت ہوگی، چنانچہ ضرورت کے مطابق پیداوار کرکے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔دریں اثنا کسان برادری کے لیے کھاد کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت ہند وسائل سے مالا مال ممالک کے ساتھ طویل مدتی شراکت داری کے ذریعے سپلائی کے رابطے قائم کرنے کے لیے گھریلو کھاد کی صنعت کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں کیمیکلز اور کھادوں کے مرکزی وزیر ڈاکٹر منسکھ مانڈویہ نے راشٹریہ کیمیکلز اینڈ فرٹیلائزرس(آر سی ایف) کی طرف سے میسرز کے پلس ایس میڈل ایسٹ ایف زیڈ ای ڈی ایم سی سی (کے+ایس منرلز اینڈ ایگریکلچر جی ایم بی ایچ، جرمنی کا ذیلی ادارہ) کے ساتھ ایک مفاہمت نامہ پیش کیا گیا۔ مفاہمت نامے پر 6 اکتوبر 2022 کو دستخط کیے گئے تھے۔ اس مفاہمت نامے کا مقصد کاشتکار برادری کے لیے ایم او پی کی دستیابی کو بہتر بنانا اور مختلف قسم کے پیچیدہ کھادوں کی مقامی پیداوار کو فروغ دینا ہے۔
حکومت نے قدرتی زراعت پر بھی زور دیا ہے۔ اس سمت میں آگے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹکنالوجی کا استعمال ابھی تک گاؤں گاؤں نہیں پہنچا ہے۔ کھیتی کو ترقی یافتہ زراعت میں تبدیل کرنے کے لئے ابھی بہت کام باقی ہے۔(اے ایم این)
ذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذذ