صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ امریکا کابل میں خود کش حملوں کے باوجود لوگوں کو افغانستان سے نکالنے میں مدد دینا جا ری رکھے گا اور ان حملوں کے لیے ذمہ دار داعش کو معاف نہیں کیا جائے گا

جمعرات کے روز کابل کے ہوائی اڈے کے باہر ہونے والے خود کش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 85 ہو گئی ہے۔ ان میں 13 امریکی فوجی شامل ہیں۔ حملوں کے بعد پیدا شدہ صورت حال کے پس منظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی قیادت کو داعش (خراسان) کے خلاف جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی کا حکم دے دیا گیا ہے۔

جمعرات کے روز ایک دھماکا کابل میں حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے باہر ایبے گیٹ پر ہوا جب کہ دوسرا ایک قریبی ہوٹل میں، جن میں کم از کم 85 افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے افغان شہریوں کی تعداد بڑھ کر 72 ہو گئی ہے۔ ان میں 28 طالبان بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں 13 امریکی فوجی مارے گئے جبکہ 18 امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

’اسلامک اسٹیٹ‘ سے وابستہ ذیلی گروپ داعش (خراسان) نے کابل ہوائی اڈے کے باہر کیے گئے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

صدر بائیڈن نے قوم سے خطا ب کرتے ہوئے کہا، ”ہم ان تک پہنچنے کے لیے اپنی مرضی کے راستے تلاش کریں گے۔ ہم انہیں معاف نہیں کریں گے۔ ہم انہیں بھولیں گے نہیں۔ ہم ان کا شکار کریں گے اور ان کو اس کی قیمت چکانا ہو گی۔”

صدر نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا ”یہ بہت مشکل دن رہا ہے۔” انہوں نے ان دھماکوں میں مارے جانے والے امریکیوں کو ‘ہیرو‘ قرار دیا اور وائٹ ہاوس اور ملک بھر میں سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم سرنگوں رکھنے کا حکم دیا۔

اکتیس اگست کے بعد انخلا کی اجازت نہیں دیں گے، طالبان

صدر بائیڈن نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ داعش کے ان حملوں میں طالبان بھی ملوث ہیں۔ انہوں نے تاہم کہا کہ یہ بات طالبان کے مفاد میں ہو گی کہ وہ داعش (خراسان) کے خلاف کارروائی میں ساتھ دیں، جو دراصل ان کی بھی دشمن ہے۔

انخلا جاری رہے گا
امریکی صدر نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کابل ہوائی اڈے کے باہر حملوں کے باوجود افغانستان سے انخلا کا سلسلہ جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکی شہریوں اور اتحادیوں کے انخلا کے فیصلے پر قائم ہیں اور اسے 31 اگست تک مکمل کرنے کی کوشش جاری رکھی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان میں موجود ملٹری کمانڈروں نے مزید فوج بھیجنے کی سفارش کی تو ‘تو میں یقینی طور اس کی اجازت دے دوں گا‘۔

صدر بائیڈن نے افغانستان سے فوجی انخلا کے فیصلے کو ایک بار پھر درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ 20 سال کے بعد افغانستان میں مزید رکنا امریکی مفاد میں نہیں تھا۔ وہ غیر ضروری طور پر افغانستان میں ایک دن بھی نہیں رہیں گے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس کے مطابق رواں سال مئی میں امریکی فوج کو افغانستان سے نکلنا تھا جب کہ طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ امریکا کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے، اور یہ ذمہ داری انہیں پوری کرنا پڑے گی۔