
ٹوکیو میں بھارتی وزیرِاعظم نریندر مودی اور جاپانی وزیرِاعظم شیگیریو ایشیبا کے درمیان ہونے والی 15ویں سالانہ سربراہی ملاقات نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئی جہت پیدا کر دی ہے۔ اس موقع پر ایک 10 سالہ روڈ میپ جاری کیا گیا جس میں سکیورٹی، معیشت، ٹیکنالوجی اور عوامی روابط جیسے وسیع شعبوں میں تعاون بڑھانے کا اعلان کیا گیا۔
68 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ہدف
اس اجلاس کی سب سے نمایاں پیش رفت جاپان کا یہ وعدہ تھا کہ آئندہ دس برسوں میں وہ بھارت میں تقریباً 10 کھرب ین (68 ارب ڈالر) کی سرمایہ کاری کرے گا۔ یہ سرمایہ کاری بنیادی ڈھانچے، سیمی کنڈکٹرز، مصنوعی ذہانت، ماحولیات اور صحت جیسے شعبوں میں کی جائے گی۔ مودی نے خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ دونوں ملکوں کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار (SMEs) اور اسٹارٹ اپس کو باہم جوڑنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ جدت اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں۔
دفاعی تعاون اور سیکورٹی فریم ورک
بھارت اور جاپان نے 2008 کے مشترکہ اعلامیے پر نظرِثانی کرتے ہوئے اس میں عملی دفاعی اقدامات شامل کرنے پر اتفاق کیا۔ دونوں ملکوں نے افواج کی انٹرآپریبلٹی بڑھانے، دو طرفہ اور کثیر فریقی مشقوں کو وسعت دینے اور سمندری سلامتی کو اولین ترجیح دینے کا فیصلہ کیا۔
بحرِہند اور بحرالکاہل میں بحری قزاقی، دہشت گردی اور غیر قانونی سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے بندرگاہوں پر مشترکہ دوروں، ریئل ٹائم انفارمیشن شیئرنگ اور تیسری ریاستوں کو کوسٹ گارڈ معاونت فراہم کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ مزید برآں، سائبر ڈیفنس، کیمیائی و حیاتیاتی خطرات سے بچاؤ، اور انسانی امداد و آفات سے نجات کے آپریشنز میں تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔
ٹیکنالوجی اور انوویشن کا نیا محور
دونوں ممالک نے تسلیم کیا کہ موجودہ عالمی منظرنامے میں ٹیکنالوجی سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اسی تناظر میں مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، کوانٹم کمپیوٹنگ، دفاعی تحقیق و ترقی اور خلا کی سائنسز میں شراکت داری بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ بھارت کا DRDO اور جاپان کی Acquisition, Technology and Logistics Agency مشترکہ منصوبوں پر کام کریں گے۔ سپلائی چین ریذیلینس، دفاعی ساز و سامان کی کو-پراڈکشن اور مائننگ سیکٹر میں مشترکہ سرمایہ کاری پر بھی بات چیت طے پائی۔
عوامی روابط: پانچ لاکھ افراد کی آمد و رفت
ایک اور اہم پیش رفت یہ تھی کہ دونوں ممالک نے آئندہ پانچ برسوں میں پانچ لاکھ افراد کی دوطرفہ آمد و رفت کا ہدف مقرر کیا۔ اس میں 50 ہزار بھارتی پروفیشنلز کو جاپان جانے کا موقع ملے گا تاکہ وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیمی کنڈکٹرز اور ایڈوانسڈ مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں افرادی قوت کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔
“انڈیا۔نپون پروگرام برائے اپلائیڈ کمپٹینسی ٹریننگ” (INPACT) جیسے منصوبے ہنرمند افرادی قوت تیار کریں گے۔ جاپانی کمپنیاں بھارتی جامعات سے براہِ راست بھرتیاں کریں گی اور زبان و پیشہ ورانہ تربیت پر سبسڈی فراہم کریں گی۔ ساتھ ہی جاپان میں یوگا اور آیوروید مراکز کے قیام سے ثقافتی رشتے مزید مضبوط ہوں گے۔
کرٹیکل منرلز پر معاہدہ
وزیرِمعدنیات جی۔ کشور ریڈی کے مطابق، بھارت اور جاپان نے اہم معدنیات (Critical Minerals) کے میدان میں ایک نیا معاہدہ کیا ہے۔ اس کے تحت دونوں ممالک نہ صرف بھارت بلکہ تیسرے ممالک میں بھی مائننگ اور پروسیسنگ میں سرمایہ کاری کریں گے۔ یہ معاہدہ صاف توانائی، فوڈ سکیورٹی اور “نیٹ زیرو” کے عالمی اہداف سے ہم آہنگ ہے۔
خطے اور دنیا پر اثرات
یہ شراکت داری صرف دوطرفہ تعلقات تک محدود نہیں بلکہ پورے ایشیا-پیسیفک کے لیے اہم ہے۔ دونوں ممالک نے آزاد اور کھلے بحرالکاہل (FOIP) کے وژن کی حمایت کی اور طاقت کے زور پر جغرافیائی حیثیت بدلنے کی ہر کوشش کی مخالفت کی۔ اس سے چین کے بڑھتے اثرورسوخ پر بالواسطہ توازن قائم کرنے کا پیغام بھی جاتا ہے۔
عالمی سطح پر دونوں رہنماؤں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات اور ایک دوسرے کی مستقل رکنیت کی حمایت دہرائی۔ ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے، دہشت گردی کے خلاف سخت موقف اور فسلائل میٹیریل کٹ آف معاہدے پر مذاکرات کو آگے بڑھانے کا بھی عزم ظاہر کیا گیا۔
تجزیہ: نیا باب یا پرانی راہ؟
بھارت اور جاپان کے تعلقات گزشتہ ایک دہائی میں نمایاں طور پر مستحکم ہوئے ہیں۔ چین کے بڑھتے اثرورسوخ اور روس-یوکرین جنگ کے تناظر میں یہ تعلقات مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ تاہم اصل سوال یہ ہے کہ کیا 68 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری، دفاعی تعاون اور افرادی تبادلے کے یہ بلند و بانگ منصوبے عملی جامہ پہن سکیں گے یا محض کاغذی وعدے رہ جائیں گے؟
بھارت کے لیے جاپانی سرمایہ کاری ہائی ٹیک صنعت اور بنیادی ڈھانچے میں بڑی تبدیلی لا سکتی ہے، جبکہ جاپان کے لیے بھارتی مارکیٹ اور افرادی قوت مستقبل کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن بیوروکریسی، ریگولیٹری مسائل، اور بدلتی جیوپولیٹیکل صورتِحال جیسے چیلنجز ان منصوبوں کی راہ میں حائل رہیں گے۔
مودی اور ایشیبا کا یہ اجلاس نہ صرف بھارت-جاپان تعلقات کے لیے بلکہ ایشیائی اور عالمی سیاست کے لیے بھی ایک اہم موڑ ہے۔ اگر دونوں ممالک اپنے طے شدہ اہداف پر خلوصِ نیت سے عملدرآمد کرتے ہیں تو آنے والا عشرہ واقعی ایک “سنہرا باب” ثابت ہو سکتا ہے جس میں بھارت اور جاپان مشترکہ طور پر ٹیکنالوجی، معیشت اور سلامتی کے عالمی معیارات پر اثرانداز ہوں گے۔
