ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین

جب سے مرکز اور مختلف ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے۔ بعض مسلمان حلقوں میں جو کبھی کانگریس اور دیگر جماعتوں کے حاشیہ بردار تھے ان کے اندر شدید بے چینی دیکھنے کو مل رہی ہے اور انہیں لگتا ہے کہ حکومت سے قرب کی وجہ سے انہیں جو فائدہ مل رہا تھا، شاید وہ اس سے محروم ہوجائیں گے۔ لہٰذا جیسے جیسے بی جے پی کے اقتدار کے جڑیں مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور یہ محسوس ہورہا ہے کہ یہ اقتدار ابھی باقی رہنے والا ہے وہ اپنے روابط استوار کرکے اپنے ذاتی مفاد کا تحفظ چاہتے ہیں۔


دوسری طرف آر ایس ایس اور ان کی ہم نوا جماعتوں نے کچھ کھل کر اپنے عزائم کا اظہار کردیا ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹریہ بنانا ہے۔ جس کا سیدھا اور صاف مطلب ہے بھارت کو مسلم آثار اور شناخت سے بالکلیہ پاک کردینا اور اس کی جگہ پر ہندو شناخت قائم کرنا۔ اس میں ایسے ہی مسلمانوں کی گنجائش ہوگی جن کے بارے میں میرؔ نے کہا قشقہ کھینچا دیر پر بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا۔ اس وقت حکومت یا سنگھ پریوار کی طرف سے جو کچھ ہورہا ہے اس کے بارے میں اگر کسی کو غلط فہمی ہے کہ یہ محض اسلام سے یا مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب سے ناسمجھی کا نتیجہ ہے تو اسے اپنی نادانی کی اصلاح کرلینی چاہیے۔سنگھ میں ایک اچھی تعداد میں ایسے دانشور موجود ہیں جو اسلام اور مسلمان سماج کا اتنا اچھا اور گہرا مطالعہ رکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے بڑے علماء اور دانشوران ان کے سامنے پانی بھرتے نظر آئیں گے۔ اور انھوں نے بہت سوچ سمجھ کر ایک لائن طے کررکھی ہے جس پر وہ ترتیب کے ساتھ گامزن ہیں۔ لہٰذا ہمارے وہ احباب جو سنگھ اور حکومت کے ذمہ داروں سے مل کر خوش ہورہے ہیں اور باہر آکر میڈیا کے سامنے اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ بہت اچھے اور خوش گوار ماحول میں بات ہوئی، صاحب بہادر نے بہت توجہ سے بات سنی اور بعض یقین دہانیاں کرائیں، ان کی سادگی اور ان کا اخلاق دیکھ کر متاثر ہوئے وغیرہ۔ یہ باتیں خود ساختہ ترجمانوں نے ضرور کہیں مگر نہ تو سنگھ نے اور نہ ہی حکومت نے اپنی طرف سے کوئی پریس نوٹ جاری کرکے ان باتوں کی تائید کی۔ اس وقت چند لوگوں کے نام نمایاں طور پر اخباروں میں پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا مگر میرؔ کا ایک شعر قلم کی نوک پر آگیا ہے اس لیے لکھ دیتا ہوں۔ میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب۔ اسی عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں۔
یہاں پر ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ کیا ڈائیلاگ پراسیس کو روک دینا چاہیے۔ کیا بات چیت کے علاوہ بھی کوئی اور صورت ہے۔ میرا جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں بلکہ ڈائیلاگ پراسیس کو اور بڑھانا چاہیے اور بات چیت ہی پرامن بقائے باہم کی واحد راہ ہے۔ پھر مجھے اس پر اعتراض کیا ہے؟ دراصل بی جے پی اور سنگھ پریوار پورے ہندو سماج کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ملٹی پارٹی ڈیموکریسی میں ووٹوں کے بٹوارے کی وجہ سے اسے مرکز اور کئی ریاستوں میں واضح اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ حکومت پر قابض ہونے کی وجہ سے پورا حکومتی عملہ اور ملک کا خزانہ اس کے ہاتھ میں آگیا ہے، اس لیے اس کی طاقت اپنی مجموعی قوت سے سوگنا زیادہ ہوگئی ہے،اس لیے لگتا ہے کہ پورا ملک بھگوا رنگ میں رنگ گیا ہے۔ جبکہ زمینی سچائی ایسی نہیں ہے۔ اگر اپوز یشن جماعتوں کے سربراہ اپنے شخصی سیاسی عزائم سے ذرا سمجھوتہ کرلیں تو بی جے پی کو ہرانا مشکل نہیں ہوگا۔ بی جے پی اور سنگھ کی اصل طاقت مخالف جماعتوں کا انتشار ہے۔
بہرحال میں اس وقت کوئی سیاسی بحث نہیں چھیڑنا چاہتا۔ میرا ماننا ہے کہ ہمیں بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں سے بات کرنی چاہیے۔ تمام سماجی اور مذہبی جماعتوں سے اور اکائیوں سے قریبی رابطہ پیدا کرنا چاہیے۔ تمام میڈیا باڈیز، ایڈیٹرس اور صحافیوں سے بات کرنی چاہیے، سارے این جی اوز سے اور وکلاء اور سول سوسائٹی کے لوگوں سے قریبی رابطہ پیدا کرنا چاہیے۔ سنگھ اور ان کے رہنماؤں اور حکومت کے ذمہ داروں سے بھی بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر یہ بات چیت رات کے اندھیرے میں اور چھپ کر نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر آپ نے بات کرنے کا ارارہ کیا ہے یا آپ کو بات چیت کی دعوت ملی ہے تو کیا ایجنڈا ہے اس کو عوام کے سامنے لائیے۔ اس کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ کیجیے اور پھر پریس کے سامنے مشترکہ میٹنگ کرکے لوگوں کو بتائیے۔ ورنہ موجودہ ماحول میں اس کو سودہ بازی کی سیاست کہا جائے گا۔ اس وقت ملت اس کی متحمل نہیں ہے۔ کوئی آدمی اپنی ذاتی حیثیت میں کسی سے ملتا ہے اور اپنے نجی مفاد کے حصول کی کوشش کرتا ہے اس پر مجھے یا کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ ہم ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں، تمام قصبات، پنچایتوں اور گاؤں میں وہاں جو آبادی ہے اس سے قریبی رابطہ بنا کر رکھیں اور ہر قیمت پر سماجی امن اور بھائی چارہ بنائے رکھنے اور قائم رکھنے پر زور دیں۔ پولیس اور مقامی انتظامیہ سے بھی قریبی رشتہ بنانے کی کوشش کریں۔ اس طرح صرف اوپر اوپر نہیں بلکہ گراس روٹ میں بات چیت کے ذریعے پرامن فضا کی تعمیر وقت کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں جو لوگ لوکل لیول پر قیادت کی صلاحیت رکھتے ہیں انہیں اس کام میں آگے آنا چاہیے۔

کالم نگار اردو کی بیسٹ سیلر بک’اکیسویں صدی کا چیلنج اور ہندوستانی مسلمان- بند گلی سے آگے کی راہ‘ کے مصنف اور سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل ہیں۔