جاوید اختر
یوں تو دنیا بھر میں انٹر نیٹ بند کرنے یا انٹرنیٹ شٹ ڈاون کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں لیکن اس حوالے سے ہندوستان کا ریکارڈ سب سے خراب ہے۔ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ایکسس ناو کی ایک رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ شٹ ڈاون کرنے کے حوالے سے حکومت ہند کا ریکارڈ سب سے خراب ہے۔ ادارے کے مطابق گزشتہ برس ہندوستان میں کم از کم 106مرتبہ انٹرنیٹ بند کیے گئے جس سے معیشت کو تقریباً 60کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔


گزشتہ برس صرف جموں و کشمیر میں کم از کم 85مرتبہ انٹرنیٹ بند کردیے گئے۔حکام نے سکیورٹی کو کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کا بنیادی سبب بتایا جب کہ ملک کے دیگر علاقوں میں مظاہروں، انتخابات، مذہبی تہواروں اور امتحانات کی وجہ سے انٹرنیٹ بند کیے گئے۔


انٹرنیٹ فریڈم فاونڈیشن سے وابستہ قانونی مشیر کرشنیش باپٹ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں انٹرنیٹ بند کرنا انتہائی آسان ہے اور مرکزی اور ریاستی سطح کے حکام کسی عدالتی اجازت کے بغیر بھی ایسا کرسکتے ہیں۔باپٹ کا کہنا ہے کہ ”احتجاجی مظاہروں یا امتحانات میں نقل روکنے کے نام پر انٹرنیٹ خدمات بند کرنے کو ٹھوس فیصلہ قرار دے کر اسے سراہا جاتا ہے جب کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چل سکے کہ اگر انٹرنیٹ سروس جاری رہتی تو نتائج کچھ مختلف ہوتے۔”


قوانین کا غلط استعمال
انٹرنیٹ پر پابندی دنیا بھر میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔پابندی کا دورانیہ بھی بڑھتا جارہا ہے اور ساتھ ہی اس سے ہونے والے نقصانات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ ایکسس ناو کے مطابق انٹرنیٹ بند ہونے سے معیشت متاثر ہوتی ہے اور کمزور طبقات کے لوگوں کو زیادہ اقتصادی اور سماجی نقصان ہوتا ہے۔ایکسس ناو کے مطابق گزشتہ برس 34 ملکوں نے 182مرتبہ انٹرنیٹ پر پابندی عائد کی۔ سن 2020کے مقابلے یہ زیادہ تھا جب 29ملکوں نے 159 مرتبہ انٹرنیٹ سروسز بند کردی تھیں۔حالانکہ ہندوستان ان چند ملکوں میں سے ایک ہے جنہوں نے انٹرنیٹ شٹ ڈاون کے لیے باقاعدہ ضابطے طے کررکھے ہیں۔ حکومت نے سن 2017میں یہ ضابطے بنائے تھے۔کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی کے حوالے سے ایک کیس کی سماعت کے دوران سن 2020میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک حکم میں کہا تھا کہ انٹرنیٹ سروس عوام کا بنیادی حق ہے۔اور انٹرنیٹ بند کرنے کے لیے نافذکیے جانے والے تمام احکامات عام کیے جانے چاہئیں۔عدالت نے کہا تھا کہ کشمیر میں غیر معینہ مدت کے لیے انٹرنیٹ بند رکھنا غیر قانونی ہے۔لیکن سپریم کورٹ کے اس حکم کا کوئی خاص اثر نہیں پڑا اور حکام نے کشمیر سمیت ملک بھر میں انٹرنیٹ پرپابندی لگانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔باپٹ کہتے ہیں کہ اکثر انٹرنیٹ شٹ ڈاون کی وجہ بھی نہیں بتائی جاتی۔ وہ کہتے ہیں،” انٹرنیٹ سروس بند کرنے کے حکم کوعدالت میں چیلنج کرنا مشکل ہے کیونکہ جب تک عرضی گذار عدالت جاتے ہیں تب تک حکم کی مدت ختم ہوچکی ہوتی ہے۔” باپٹ کے مطابق اس کے باوجود قانونی طور پر چیلنج کرنا ضروری ہے کیونکہ قانون بار بار توڑے جارہے ہیں۔اس سال کے اوائل میں کلکتہ ہائی کورٹ نے مغربی بنگال حکومت کو کئی اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا حکم منسوخ کردیا تھا۔ ریاستی حکومت نے امتحانات میں نقل کو روکنے کی بنیاد بناکر یہ حکم جاری کیا تھا لیکن عدالت نے کہا کہ یہ حکم ”غیر منطقی تھا او رکوئی عوامی ایمرجنسی نہیں تھی۔”


قوانین ہیں کیا؟
مودی حکومت نے انٹرنیٹ کے بعد جب سوشل میڈیا کے لیے گزشتہ برس نئے قوانین متعارف کرائے تو ان کی شدید نکتہ چینی کی گئی۔ ان قوانین کا اطلاق نہ صرف سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر ہوتا ہے بلکہ تمام اسٹریمنگ پلیٹ فارمز اور ڈیجیٹل نیوز کی کمپنیاں بھی ممکنہ طور پر ان سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ان قوانین کی روشنی میں اگر حکومت ان کمپنیوں کو کہے کہ کوئی مواد غیر قانونی ہے اور اسے اپنے پلیٹ فارم سے ہٹا دیا جائے تو ان کمپنیوں کے پاس اس حکومت کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہو گا۔اس صورت میں انٹر نیٹ کمپنی کو 36 گھنٹوں میں مواد ہٹانا ہو گا ورنہ اس کے خلاف مجرمانہ نوعیت کا مقدمہ چلایا جائے گا۔انٹر نیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آپار گُپتا کا کہنا ہے کہ نئے قواعد وضوابط کے تحت انٹر نیٹ پلیٹ فارم سیلف سنسر شپ کا شکار ہو جائیں گے اور حکومتی خوف کی وجہ سے آزادی رائے و صحافت سے لطف اندوز ہونے میں ناکام ہو جائیں گے۔مودی حکومت کا تاہم کہنا ہے کہ نفرت انگیزی، غلط معلومات اور جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر یہ قوانین ناگزیر تھے۔


متاثر کون کون؟
ایک ارب 30کروڑ سے زائد آبادی والا ملک ہندوستان انٹر نیٹ بزنس کے لیے ایک سونے کی چڑیا قرار دیا جاتا ہے، جہاں ایک اندازے کے مطابق سن2025 تک 90 کروڑ افراد کو انٹر نیٹ کی سہولت دستیاب ہو گی۔سبھی انٹر نیٹ کمپنیوں کو علم ہے کہ ہندوستان اس لحاظ سے ایک بڑی منڈی ہے اور ہر کمپنی ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے کے علاوہ صارفین کو خدمات پہنچانے کے لیے بے قرار ہے۔
لیکن انٹرنیٹ کی بندش یا شٹ ڈاون کی وجہ سے متاثرہ علاقوں کے افراد معلومات اور اطلاعات کے سلسلے میں ایک خلا جیسی صورتحال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں نہ پریس اور میڈیا رپورٹنگ کر سکتا ہے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے کیے گئے دعووں کی مقامی افراد تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں۔انٹرنیٹ کی بندش سے اقتصادی سرگرمیوں کو بھی شدید دھچکا پہنچتا ہے۔ ہندوستان کو سن 2012 تا 2017 تک انٹرنیٹ بندش کی وجہ سے قریب تین ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ فری لانسرز، چھوٹے کاروبار اور سیاحت کی صنعت ان بندشوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ایک جائزے کے مطابق انٹرنیٹ کی بندش کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ ایسے علاقے جہاں پہلے ہیں خواتین کی عوامی جگہوں پر موجودگی محدود ہے، وہاں اطلاعات تک عدم رسائی سے انہیں حقوق اور آزادیوں سے متعلق معلومات کے فقدان کا بھی سامنا ہوتا ہے۔پولیٹیکس، پالیسی اینڈ گورنمنٹ نامی تھنک ٹینک کے سابق سربراہ راحیل خورشید کا خیال ہے کہ حکومت ہند چاہتی ہے کہ اس ملک میں بھی انٹر نیٹ پر اتنی پابندیاں لگا دی جائیں، جیسا کی چین میں ہے۔(اے ایم این)