UN PHOTO

عندلیب اختر

انتہائی غربت کو کم کرنے کی عالمی پیشرفت عملی طور پر رک سی گئی ہے۔ کووڈ سے دہائیوں میں عالمی غربت کو سب سے بڑا دھچکا لگا اس کے بعد ر دنیا کے سب سے بڑے خوراک پیدا کرنے وا لے ممالک کے درمیان تنازعات کی وجہ سے خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیوں نے اس سمت تیزی سے بحالی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔


دنیا کے غریب ترین لوگوں نے وبائی امراض کے سب سے بڑے اخراجات برداشت کیے ہیں۔ ان کی آمدنی کا نقصان دنیا کے امیر ترین افراد سے دوگنا زیادہ تھا، اور عالمی عدم مساوات کئی دہائیوں میں پہلی بار اتنا بڑھا ہے۔ غریب ترین طبقے کو صحت اور تعلیم میں بھی بڑے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا جن کو اگر پالیسی ایکشن سے دور نہ کیا گیا تو ان کی زندگی بھر کی آمدنی کے امکانات پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔
خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں – جو جزوی طور پر یوکرین میں جنگ اور آب و ہوا کے جھٹکے اور تنازعات کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں – نے تیزی سے بحالی میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ 2023 کے آخر تک، تقریباً 685 سات کروڑ لوگ اب بھی انتہائی غربت میں رہ سکتے ہیں۔


اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) اور عالمی بینک کی جاری کردہ ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ہر چھ میں سے ایک بچہ روزانہ عالمی معیار سے کہیں کم وسائل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 333 ملین یعنی تیس کروڑ بچے شدید غربت میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور گزشتہ دہائی کے دوران اس تعداد میں تقریباً 50 ملین ۵ کروڑ افراد کی کمی ہوئی ہے۔تاہم رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اگر کووڈ۔19 سے متعلقہ تین سالہ مسائل پیش نہ آتے تو مزید لاکھوں لوگوں کو شدید غربت سے نکالا جا سکتا تھا۔


یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرائن رسل نے کہا ہے وبا کے اثرات اور جنگوں، موسمیاتی تبدیلی اور معاشی جھٹکوں نے بچوں کی غربت کا خاتمہ کرنے کی جانب پیش رفت کو روک دیا ہے۔ انہوں نے شدید غربت کی بنیادی وجوہات پر قابو پانے اور یہ یقینی بنانے کے لیے کوششوں میں اضافہ کرنے کو کہا کہ تمام بچوں کو تعلیم، غذائیت، علاج معالجے اور سماجی تحفظ سمیت تمام ضرورت خدمات تک رسائی ہو۔
انہوں نے کہا کہ ان بچوں کو ناکام نہیں چھوڑا جا سکتا۔


رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں شدید غربت کا شکار افراد میں نصف سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے جبکہ وہ دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف ایک تہائی ہیں۔ شدید غربت کا شکار تقریباً 90 فیصد بچوں کا تعلق یا تو ذیلی صحارا افریقہ سے ہے یا وہ جنوبی ایشیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2022 میں ذیلی صحارا افریقہ میں شدید غربت کی شرح 40 فیصد تھی جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس خطے میں شدید غربت کا شکار بچوں کی شرح بھی سب سے زیادہ رہی جو 71 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ 10 برس پہلے یہ شرح 55 فیصد تھی جس میں اب نمایاں اضافہ ہو چکا ہے۔رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ تیزی سے بڑھتی آبادی اور سماجی تحفظ کے محدود اقدامات کا اس تیزتر اضافے میں اہم کردار ہے۔ دریں اثنا، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے علاوہ دنیا کے دیگر تمام خطوں میں شدید غربت کی شرح میں متواتر کمی دیکھی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والے اور ایسے گھرانوں کے بچے شدید غربت سے نمایاں طور پر متاثر ہوتے ہیں جن کے سربراہ کم تعلیم یافتہ یا سرے سے ناخواندہ ہیں۔ اندازے کے مطابق مسلح تنازعات سے متاثرہ ممالک میں ہر تین میں سے ایک بچہ شدید غربت کا شکار گھرانوں میں رہتا ہے، جبکہ مستحکم ممالک میں ہر 10 میں سے ایک بچہ شدید غربت کا شکار ہے۔


رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ غربت میں کمی کی موجودہ شرح کو مدنظر رکھا جائے تو 2030 تک بچوں کی شدید غربت کے خاتمے سے متعلق پائیدار ترقی کا ہدف (ایس ڈی جی 1) حاصل نہیں ہو پائے گا۔ اس ہفتے کے آغاز میں اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے انسانی حقوق کونسل میں خطاب کرتے ہوئے اس ہدف کی جانب دنیا کی ناکافی پیش رفت کو انسانی حقوق سے متعلق خوفناک اجتماعی ناکامی قرار دیا تھا۔


؎ پچیس کروڑ بچے ا سکول جانے سے محروم
دریں اثنا اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے (یونیسکو) نے بتایا ہے کہ دنیا بھر میں کسی بھی تعلیمی درجے میں ا سکول جانے سے محروم ہونے والے بچوں کی تعداد چھ ملین اضافے کے بعد 250 ملین یعنی ۲۵ کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔کسی حد تک اس اضافے کی وجہ افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کے تعلیمی اداروں میں جانے پر عائد کردہ اجتماعی پابندی ہے تاہم دنیا بھر میں تعلیم کی فراہمی میں بڑے پیمانے پر آنے والے جمود کو بھی اس کا سبب کہا جا سکتا ہے۔اس سے پائیدار ترقی سے متعلق اقوام متحدہ کے چوتھے ہدف کے حصول کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے جس کا مقصد 2030 تک دنیا میں تمام لوگوں کع معیاری تعلیم مہیا کرنا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر ممالک ایس ڈی جی 4 کے حوالے سے اپنی قومی اہداف کے حصول کی راہ پر گامزن ہوتے تو مزید چھ ملین بچے اسکولوں میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے اور مزید 58 ملین بچے اور نوعمر افراد سکولوں میں ہوتے جبکہ پرائمری ا سکولوں کے کم از کم 1.7 اساتذہ کو تربیت دی جا چکی ہوتی۔ یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے آزولے کا کہنا ہے کہ تعلیم ہنگامی حالات سے دوچار ہے۔ اگرچہ گزشتہ دہائیوں میں تمام لوگوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے قابل ذکر کوششیں ہوئی ہیں تاہم یونیسکو کے اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب سکول جانے سے محروم بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ اگر ممالک اپنے لاکھوں بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں تو انہیں تعلیم کے لیے ہنگامی طور پر متحرک ہونا ہو گا۔


‘ایک سال قبل تعلیم میں تبدیلی لانے سے متعلق اقوام متحدہ کی کانفرنس میں 141 ممالک نے ایس ڈی جی 4 کی جانب پیش رفت کی رفتار بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس موقع پر 20 فیصد ممالک نے اساتذہ کی تربیت اور پیشہ وارانہ ترقی کو فروغ دینا اپنا مقصد قرار دیا جبکہ 70 فیصد نے تعلیم پر سرمایہ کاری بڑھانے یا اس میں بہتری لانے کا وعدہ کیا جبکہ 25 فیصد نے عزم کیا کہ وہ تعلیم اداروں کی مالی معاونت کو بڑھائیں گے او ر ا سکولوں میں بچوں کو کھانا فراہم کرنے کے اقدامات کریں گے۔تاہم ممالک کے لیے ایس ڈی جی 4 سے متعلق اپنے اہداف تک پہنچنا اسی صورت ممکن ہے جب 2030 تک وہ ہر سال لاکھوں بچوں کو ابتدائی تعلیم مہیا کریں گے اور انہیں پرائمری تعلیم مکمل کرنے والے بچوں کی تعداد کو بڑھا کر تین گنا کرنا ہو گا۔
‘دی ایجوکیشن 2030 فریم ورک فار ایکشن’ ممالک سے ایسی ڈی جی 4 سے متعلق اشاریوں کے حوالے سے وسط مدتی اہداف طے کرنے کو کہتا ہے۔ اس مشمولہ طریقہ کار میں ممالک کو ایس ڈی جی 4 کے سات اہداف 2025 اور 2030 تک حاصل کرنے میں مدد فراہم کی گئی جن میں قبل از ابتدائی درجے کی تعلیم، سکول میں حاضری، تعلیم کی تکمیل اور خواندگی، صں فی مساوات، سیکھنے کی استعداد، تربیت یافتہ اساتذہ کی دستیابی اور تعلیم پر سرکاری اخراجات شامل ہیں۔

AMN